كِتَابُ بَابُ هَلْ يَفْلِي أَحَدٌ رَأْسَ غَيْرِهِ؟ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامِ ابْنَةِ مِلْحَانَ، فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَأَطْعَمَتْهُ وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ، فَنَامَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَضْحَكُ
کتاب
کیا کوئی دوسرے کے سر کی جوئیں نکال سکتا ہے
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا جو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، کے ہاں تشریف لے جاتے اور وہ آپ کو کھانا کھلاتیں۔ ایک دفعہ انہوں نے آپ کو کھانا کھلایا اور آپ کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں تو آپ سو گئے، پھر اٹھے تو آپ ہنس رہے تھے۔
تشریح :
(۱)ام حرام سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں۔ یہ وہی صحابیہ ہیں جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں شرکت کی دعا کروائی اور پھر اسی غزوے میں شہید ہوگئیں۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کے ننھیال مدینہ طیبہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔
(۲) اس سے معلوم ہوا عورت اپنے کسی محرم مرد کی جوئیں وغیرہ نکال سکتی ہے، یہ بالکل وہی صورت ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے کہ خالہ یا پھوپھی کے پاس اگر بچہ بیٹھ جائے تو وہ اس کا سر دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ جوئیں ہوں۔ اسی طرح اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے سر میں جوئیں ہوتی تھیں اور اگر مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں جوئیں تھیں تو آپ کے حالات کے لحاظ سے ایسا بھی ممکن ہے۔ عام طور پر آپ کے بال کانوں کے نیچے تک ہوتے تھے۔ آج کل کی مروج کٹنگ آپ کی عادت نہ تھی، عرب کے ہاں پانی کی قلت کا مسئلہ مستقل تھا۔ تو مسلسل صابن یا شیمپوں کے ساتھ بالوں کو دھو کر رکھنا ممکن نہ تھا۔ پھر آپ عام طور پر جہادی سفروں پر رہتے تھے ایسے حالات میں اگر کبھی جوئیں پڑ گئی ہوں تو اس اک امکان موجود ہے۔ واللہ اعلم!
(۳) بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ نہیں تھیں تاہم یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا تھا کہ غیر محرم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی جوئیں دیکھیں۔
تخریج :
صحیح:صحیح البخاري، الجهاد والسیر، ح:۲۷۸۹۔ ومسلم کتاب الإمارة:۱۹۱۲، ۱۶۰۔
(۱)ام حرام سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں۔ یہ وہی صحابیہ ہیں جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر میں شرکت کی دعا کروائی اور پھر اسی غزوے میں شہید ہوگئیں۔ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کے ننھیال مدینہ طیبہ ہی سے تعلق رکھتے تھے۔
(۲) اس سے معلوم ہوا عورت اپنے کسی محرم مرد کی جوئیں وغیرہ نکال سکتی ہے، یہ بالکل وہی صورت ہے جو ہمارے ہاں رائج ہے کہ خالہ یا پھوپھی کے پاس اگر بچہ بیٹھ جائے تو وہ اس کا سر دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ ضروری نہیں ہوتا کہ جوئیں ہوں۔ اسی طرح اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے سر میں جوئیں ہوتی تھیں اور اگر مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر میں جوئیں تھیں تو آپ کے حالات کے لحاظ سے ایسا بھی ممکن ہے۔ عام طور پر آپ کے بال کانوں کے نیچے تک ہوتے تھے۔ آج کل کی مروج کٹنگ آپ کی عادت نہ تھی، عرب کے ہاں پانی کی قلت کا مسئلہ مستقل تھا۔ تو مسلسل صابن یا شیمپوں کے ساتھ بالوں کو دھو کر رکھنا ممکن نہ تھا۔ پھر آپ عام طور پر جہادی سفروں پر رہتے تھے ایسے حالات میں اگر کبھی جوئیں پڑ گئی ہوں تو اس اک امکان موجود ہے۔ واللہ اعلم!
(۳) بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ نہیں تھیں تاہم یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا تھا کہ غیر محرم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی جوئیں دیکھیں۔