الادب المفرد - حدیث 922

كِتَابُ بَابُ تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ الْإِفْرِيقِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّهُمْ كَانُوا غُزَاةً فِي الْبَحْرِ زَمَنَ مُعَاوِيَةَ، فَانْضَمَّ مَرْكَبُنَا إِلَى مَرْكَبِ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، فَلَمَّا حَضَرَ غَدَاؤُنَا أَرْسَلْنَا إِلَيْهِ، فَأَتَانَا فَقَالَ: دَعَوْتُمُونِي وَأَنَا صَائِمٌ، فَلَمْ يَكُنْ لِي بُدٌّ مِنْ أَنْ أُجِيبَكُمْ، لِأَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ لِلْمُسْلِمِ عَلَى أَخِيهِ سِتَّ خِصَالٍ وَاجِبَةٍ، إِنْ تَرَكَ مِنْهَا شَيْئًا فَقَدْ تَرَكَ حَقًّا وَاجِبًا لِأَخِيهِ عَلَيْهِ: يُسَلِّمُ عَلَيْهِ إِذَا لَقِيَهُ، وَيُجِيبُهُ إِذَا دَعَاهُ، وَيُشَمِّتُهُ إِذَا عَطَسَ، وَيَعُودُهُ إِذَا مَرِضَ، وَيَحْضُرُهُ إِذَا مَاتَ، وَيَنْصَحُهُ إِذَا اسْتَنْصَحَهُ "، قَالَ: وَكَانَ مَعَنَا رَجُلٌ مَزَّاحٌ يَقُولُ لِرَجُلٍ أَصَابَ طَعَامَنَا: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَبِرًّا، فَغَضِبَ عَلَيْهِ حِينَ أَكْثَرَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لِأَبِي أَيُّوبَ: مَا تَرَى فِي رَجُلٍ إِذَا قُلْتُ لَهُ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا وَبِرًّا، غَضِبَ وَشَتَمَنِي؟ فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: إِنَّا كُنَّا نَقُولُ: إِنَّ مَنْ لَمْ يُصْلِحْهُ الْخَيْرُ أَصْلَحْهُ الشَّرُّ، فَاقْلِبْ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ حِينَ أَتَاهُ: جَزَاكَ اللَّهُ شَرًّا وَعَرًّا، فَضَحِكَ وَرَضِيَ وَقَالَ: مَا تَدَعُ مُزَاحَكَ، فَقَالَ الرَّجُلُ: جَزَى اللَّهُ أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ خَيْرًا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 922

کتاب چھینک کا جواب دینے کا بیان زیاد بن انعم افریقی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں وہ ایک سمندری غزوے میں شریک تھے کہ ہماری کشتی سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی کشتی سے مل گئی۔ جب ہمارے کھانے کا وقت ہوا تو ہم نے انہیں بھی کھانے کے لیے بلایا تو وہ تشریف لے آئے اور کہا:تم نے مجھے دعوت دی جبکہ میں روزے سے ہوں اور تمہاری دعوت قبول کیے بغیر میرے لیے کوئی چارہ بھی نہیں کیونکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:’’مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق واجب ہیں۔ اگر وہ ان میں سے کوئی چیز چھوڑ دے تو اس نے واجب حق چھوڑا ہے جو اس کے بھائی کا اس کے ذمے تھا۔ جب وہ اس سے ملے تو سلام کرے، جب وہ اسے دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرے، جب اسے چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب دے، جب وہ بیمار ہو تو اس کی تیمار داری کرے، جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں حاضر ہو اور جب وہ اس سے نصیحت طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک نہایت مزاحیہ شخص تھا اس نے ہمارے ساتھ کھانے والے ایک شخص سے کہا:جزاک اللہ خیراً و براً، چنانچہ جب اس نے زیادہ مزاح کیا تو وہ غصے ہوگیا۔ اس مزاحیہ شخص نے سیدنا ابو ایوب سے کہا:آپ دیکھتے ہیں کہ اس شخص کو جزاک اللہ خیراً وبراً کہتا ہوں تو یہ غصے ہو جاتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے۔ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ہم کہتے ہیں کہ جسے بھلائی نہ سنوارے اسے برائی سنوار دیتی ہے، لہٰذا جملہ بدل دو، چنانچہ جب وہ آدمی اس کے پاس آیا تو اس نے کہا:جزاك اللّٰه شرًا وعرًّا (اللہ تجھے برا اور تنگی کا بدلہ دے)چنانچہ وہ ہنس پڑا اور راضی ہوگیا اور کہا:تم اپنا مذاق چھوڑنے والے نہیں ہو۔ اس آدمی نے کہا:اللہ ابوایوب انصاری کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
تشریح : اس روایت کی سند ضعیف ہے، تاہم مسلمان کے چھ حقوق کا ذکر صحیح احادیث میں وارد ہے اور ان میں یہ جملہ نہیں ہے کہ اگر اس نے ان میں سے کوئی چیز چھوڑی تو اس نے واجب حق کو چھوڑ دیا۔
تخریج : ضعیف:أخرجه الحارث في مسندہ کما في البغیة:۹۱۰۔ والطبراني في الکبیر:۴۰۷۶۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے، تاہم مسلمان کے چھ حقوق کا ذکر صحیح احادیث میں وارد ہے اور ان میں یہ جملہ نہیں ہے کہ اگر اس نے ان میں سے کوئی چیز چھوڑی تو اس نے واجب حق کو چھوڑ دیا۔