الادب المفرد - حدیث 916

كِتَابُ بَابُ الشُّؤْمِ فِي الْفَرَسِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ، وَسَالِمٍ ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((الشُّؤْمُ فِي الدَّارِ، وَالْمَرْأَةِ، وَالْفَرَسِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 916

کتاب گھوڑے میں نحوست کی حقیقت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نحوست گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے۔‘‘
تشریح : (۱)ان چیزوں میں نحوست کا کیا مطلب ہے اس بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نحوست ہوسکتی تو ان تین چیزوں میں ہوسکتی تھی مگر ان میں بھی نہیں ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی بعض طرق اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ اگر نحوست ہوسکتی تو ان تین میں ہوتی۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ ان چیزوں میں بسا اوقات نحوست ہوتی ہے۔ گھر کی نحوست اس کا تنگ ہونا ہے، بیوی اگر بد اخلاق اور بد مزاج ہو اور نافرمان ہو، انسان علیحدگی بھی اختیار نہ کرسکتا ہو تو یہ اس کا منحوس ہونا ہے۔ سواری اگر اڑیل ہو یا گھوڑا ریاکاری اور دکھلاوے کے لیے ہو تو اس میں نحوست ہے کہ نہ اس کا دنیاوی فائدہ ہے اور نہ اخروی۔ (۲) بعض علماء نے اس روایت کو شاذ قرار دیا ہے اور دوسرے الفاظ جن میں ہے کہ اگر نحوست ہوسکتی ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی، کو محفوظ قرار دیا ہے ان میں امام طحاوی، ابن عبدالبر اور شیخ البانی رحمہ اللہ ہیں۔ (ضعیف الادب المفرد) (۳) راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ از خود یہ چیزیں خیر و برکت پر مبنی ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے اس لیے اگر مذکورہ روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے جیسا کہ بعض ائمہ نے کہا ہے تو اس کی تاویل یہ ہوگی کہ بسا اوقات خارجی وجوہات کی بنا پر ان میں نحوست آجاتی ہے جیسا کہ گھر کا تنگ اور تاریک ہونا اور افراد خانہ کا زیادہ ہونا، بیوی کا بد مزاج، بد کردار اور نافرمان ہونا اور سواری کا اڑیل ہونا وغیرہ۔ (۴) یاد رہے کہ ہر گھریلو جھگڑے کو گھر کی نحوست قرار دینا اور پریشانی کو بیوی کے سر تھوپنا کہ یہ تیری نحوست ہے قطعاً درست نہیں بلکہ جاہلانہ عادت ہے جس سے اجتناب از حد ضروری ہے۔
تخریج : شاذ والمحفوظ عن ابن عمر وغیرہ (إن کان الشؤم في شَیْء فَفي الدَّار)۔ أخرجه البخاری، کتاب النکاح:۵۰۹۳۔ ومسلم:۲۲۲۵۔ وأبي داود:۳۹۲۲۔ والترمذي:۲۸۲۴۔ والنسائي:۳۵۶۹۔ (۱)ان چیزوں میں نحوست کا کیا مطلب ہے اس بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر نحوست ہوسکتی تو ان تین چیزوں میں ہوسکتی تھی مگر ان میں بھی نہیں ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی بعض طرق اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ اگر نحوست ہوسکتی تو ان تین میں ہوتی۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ ان چیزوں میں بسا اوقات نحوست ہوتی ہے۔ گھر کی نحوست اس کا تنگ ہونا ہے، بیوی اگر بد اخلاق اور بد مزاج ہو اور نافرمان ہو، انسان علیحدگی بھی اختیار نہ کرسکتا ہو تو یہ اس کا منحوس ہونا ہے۔ سواری اگر اڑیل ہو یا گھوڑا ریاکاری اور دکھلاوے کے لیے ہو تو اس میں نحوست ہے کہ نہ اس کا دنیاوی فائدہ ہے اور نہ اخروی۔ (۲) بعض علماء نے اس روایت کو شاذ قرار دیا ہے اور دوسرے الفاظ جن میں ہے کہ اگر نحوست ہوسکتی ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی، کو محفوظ قرار دیا ہے ان میں امام طحاوی، ابن عبدالبر اور شیخ البانی رحمہ اللہ ہیں۔ (ضعیف الادب المفرد) (۳) راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ از خود یہ چیزیں خیر و برکت پر مبنی ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث سے معلوم ہوتا ہے اس لیے اگر مذکورہ روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے جیسا کہ بعض ائمہ نے کہا ہے تو اس کی تاویل یہ ہوگی کہ بسا اوقات خارجی وجوہات کی بنا پر ان میں نحوست آجاتی ہے جیسا کہ گھر کا تنگ اور تاریک ہونا اور افراد خانہ کا زیادہ ہونا، بیوی کا بد مزاج، بد کردار اور نافرمان ہونا اور سواری کا اڑیل ہونا وغیرہ۔ (۴) یاد رہے کہ ہر گھریلو جھگڑے کو گھر کی نحوست قرار دینا اور پریشانی کو بیوی کے سر تھوپنا کہ یہ تیری نحوست ہے قطعاً درست نہیں بلکہ جاہلانہ عادت ہے جس سے اجتناب از حد ضروری ہے۔