الادب المفرد - حدیث 910

كِتَابُ بَابُ الطِّيَرَةِ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، يَعْنِي: عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((لَا طِيَرَةَ، وَخَيْرُهَا الْفَأْلُ)) ، قَالُوا: وَمَا الْفَأْلُ؟ قَالَ: ((كَلِمَةٌ صَالِحَةٌ يَسْمَعُهَا أَحَدُكُمْ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 910

کتاب برا شگون لینے کا حکم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’بدشگونی کوئی چیز نہیں، اس میں سے بہتر فال ہے۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا:فال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:’’اچھا کلمہ جو تم میں سے کوئی سن لے۔‘‘
تشریح : (۱)طیرہ بدشگونی کو کہتے ہیں کہ برا گمان رکھنا، اس میں اللہ تعالیٰ سے یہ گمان بد رکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی مصیبت ڈالے گا حالانکہ اس کا کوئی مضبوط سبب نہیں ہوتا۔ اور فال عموماً اچھے گمان کے لیے بولا جاتا ہے، تاہم برے شگون کے لیے بھی یہ لفظ بولتے ہیں۔ (۲) زمانہ جاہلیت میں لوگ سفر شروع کرنے سے پہلے پرندے کو اڑاتے۔ اگر دائیں طرف اڑتا تو اچھا شگون لے کر سفر شروع کرتے اور اگر بائیں طرف اڑتا تو بدشگونی کی وجہ سے سفر کا آغاز نہ کرتے، گویا کہ پرندے کو اچھے یا برے کا علم ہے اور یوں نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں باتیں شرکیہ ہیں۔ (۳) فال یہ ہے کہ آپ کسی آدمی سے ملیں اور اس کا نام بہت اچھا ہو تو آپ یہ فال لیں کہ باقی معاملات بھی آسان ہوں گے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر سہیل بن عمرو کی مشرکین کی طرف سے آمد پر نیک فال لی کہ اب تمہارا معاملہ آسان ہو جائے گا کیونکہ سہیل، سہل سے ہے جس کے معنی آسانی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اچھا شگون لینے میں کوئی حرج نہیں، تاہم بدشگونی لے کر اس وجہ سے کام سے رک جانا شرک ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الطب، باب الفال:۵۷۵۵۔ ومسلم:۲۲۲۳۔ (۱)طیرہ بدشگونی کو کہتے ہیں کہ برا گمان رکھنا، اس میں اللہ تعالیٰ سے یہ گمان بد رکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی مصیبت ڈالے گا حالانکہ اس کا کوئی مضبوط سبب نہیں ہوتا۔ اور فال عموماً اچھے گمان کے لیے بولا جاتا ہے، تاہم برے شگون کے لیے بھی یہ لفظ بولتے ہیں۔ (۲) زمانہ جاہلیت میں لوگ سفر شروع کرنے سے پہلے پرندے کو اڑاتے۔ اگر دائیں طرف اڑتا تو اچھا شگون لے کر سفر شروع کرتے اور اگر بائیں طرف اڑتا تو بدشگونی کی وجہ سے سفر کا آغاز نہ کرتے، گویا کہ پرندے کو اچھے یا برے کا علم ہے اور یوں نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں باتیں شرکیہ ہیں۔ (۳) فال یہ ہے کہ آپ کسی آدمی سے ملیں اور اس کا نام بہت اچھا ہو تو آپ یہ فال لیں کہ باقی معاملات بھی آسان ہوں گے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر سہیل بن عمرو کی مشرکین کی طرف سے آمد پر نیک فال لی کہ اب تمہارا معاملہ آسان ہو جائے گا کیونکہ سہیل، سہل سے ہے جس کے معنی آسانی ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اچھا شگون لینے میں کوئی حرج نہیں، تاہم بدشگونی لے کر اس وجہ سے کام سے رک جانا شرک ہے۔