الادب المفرد - حدیث 91

كِتَابُ بَابُ قُبْلَةِ الصِّبْيَانِ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: قَبَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ وَعِنْدَهُ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ جَالِسٌ، فَقَالَ الْأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: ((مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 91

کتاب بچوں کو بوسہ دینے کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (سے روایت ہے وہ)فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا تو وہاں اقرع بن حابس تمیمی بھی تھے، انہوں نے کہا:میرے دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا:’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
تشریح : (۱)اس سے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کس قدر پیار کرتے تھے، نیز معلوم ہوا کہ بچوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ (۲) اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ فتح مکہ، غزوہ حنین اور طائف کے غزوے میں شریک ہوئے۔ بعد کے غزوات میں بھی شریک ہوتے رہے اور سید عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شہید ہوئے۔ شریف النفس انسان تھے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے ابھی زیادہ دیر فیض یاب نہیں ہوئے تھے اس لیے اپنے جاہلانہ طرز زندگی کو فخریہ انداز میں بیان کیا جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح فرما دی کہ بچوں سے پیار نہ کرنا کوئی قابل تعریف کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی کا باعث ہے۔ (۳) رحم کرنا صرف اپنی اولاد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ بھی مشفقانہ رویہ ہونا چاہیے۔ جب کوئی بچہ نماز میں روتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر کر دیتے۔ جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کرنا بھی آپ کی صفت رحیمی کا مظہر ہے۔ پھر یہ رحم کرنا بچوں تک محدود نہیں بلکہ بڑوں پر بھی رحم کرنا چاہیے۔ ضرورت مند کی مدد کرنا، کمزوروں کا خیال رکھنا اور لوگوں کے دکھ درد کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ سب شرعاً مطلوب ہیں۔ اگر کوئی شخص ان صفات سے عاری ہے کہ اسے اپنے من کی فکر ہے اور انسانیت کا درد نہیں رکھتا تو وہ اللہ کی رحمت سے محروم رہے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہی تھا کہ آپ حد درجہ عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا درد بھی رکھتے تھے اور ان کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش بھی آتے تھے۔ (۴) اولاد کے ساتھ پیار اور شفقت نہ کرنا، قساوت قلبی ہے جو اللہ تعالیٰ سے دوری کا باعث ہے۔ ایک حدیث میں اس کا علاج مسکینوں کو کھانا کھلانا اور یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنا بتلایا گیا ہے۔ (صحیح الترغیب، ح:۲۵۴۵) (۵) گھر اور معاشرے کے ماحول کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ پیار و محبت کا رویہ اختیار جائے۔ جن بچوں کو گھر سے پیار نہیں ملتا وہ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں اور گھر سے باہر پیار تلاش کرتے ہیں اور نتیجتاً بگڑ جاتے ہیں۔ تاہم پیار کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کیا جائے۔ گھروں میں فحش اور حیا باختہ لٹریچر اور دیگر آلات موسیقی کو اس لیے رکھنا کہ بچے باہر جاتے ہیں سراسر حماقت ہے۔ برائی کا یہ علاج ہرگز نہیں کہ خود برائی کو اختیار کرلیا جائے بلکہ حتی الوسع بچوں کو اس سے متنفر کرنا چاہیے اور ان میں اس چیز کی برائی کا شعور اجاگر کرنا چاہیے۔
تخریج : حیح:أخرجه البخاري، الأدب، باب رحمة الولد وتقبیله ومعانقته:۵۹۹۷۔ ومسلم:۲۳۱۸۔ وأبي داؤد:۵۲۱۸۔ والترمذي:۱۹۱۱۔ غایة المرام:۷۰، ۷۱۔ (۱)اس سے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کس قدر پیار کرتے تھے، نیز معلوم ہوا کہ بچوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ (۲) اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ فتح مکہ، غزوہ حنین اور طائف کے غزوے میں شریک ہوئے۔ بعد کے غزوات میں بھی شریک ہوتے رہے اور سید عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شہید ہوئے۔ شریف النفس انسان تھے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے ابھی زیادہ دیر فیض یاب نہیں ہوئے تھے اس لیے اپنے جاہلانہ طرز زندگی کو فخریہ انداز میں بیان کیا جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح فرما دی کہ بچوں سے پیار نہ کرنا کوئی قابل تعریف کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی کا باعث ہے۔ (۳) رحم کرنا صرف اپنی اولاد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ بھی مشفقانہ رویہ ہونا چاہیے۔ جب کوئی بچہ نماز میں روتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر کر دیتے۔ جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع کرنا بھی آپ کی صفت رحیمی کا مظہر ہے۔ پھر یہ رحم کرنا بچوں تک محدود نہیں بلکہ بڑوں پر بھی رحم کرنا چاہیے۔ ضرورت مند کی مدد کرنا، کمزوروں کا خیال رکھنا اور لوگوں کے دکھ درد کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ سب شرعاً مطلوب ہیں۔ اگر کوئی شخص ان صفات سے عاری ہے کہ اسے اپنے من کی فکر ہے اور انسانیت کا درد نہیں رکھتا تو وہ اللہ کی رحمت سے محروم رہے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہی تھا کہ آپ حد درجہ عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا درد بھی رکھتے تھے اور ان کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش بھی آتے تھے۔ (۴) اولاد کے ساتھ پیار اور شفقت نہ کرنا، قساوت قلبی ہے جو اللہ تعالیٰ سے دوری کا باعث ہے۔ ایک حدیث میں اس کا علاج مسکینوں کو کھانا کھلانا اور یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنا بتلایا گیا ہے۔ (صحیح الترغیب، ح:۲۵۴۵) (۵) گھر اور معاشرے کے ماحول کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ پیار و محبت کا رویہ اختیار جائے۔ جن بچوں کو گھر سے پیار نہیں ملتا وہ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں اور گھر سے باہر پیار تلاش کرتے ہیں اور نتیجتاً بگڑ جاتے ہیں۔ تاہم پیار کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کیا جائے۔ گھروں میں فحش اور حیا باختہ لٹریچر اور دیگر آلات موسیقی کو اس لیے رکھنا کہ بچے باہر جاتے ہیں سراسر حماقت ہے۔ برائی کا یہ علاج ہرگز نہیں کہ خود برائی کو اختیار کرلیا جائے بلکہ حتی الوسع بچوں کو اس سے متنفر کرنا چاہیے اور ان میں اس چیز کی برائی کا شعور اجاگر کرنا چاہیے۔