كِتَابُ بَابُ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا رَأَى غَيْمًا حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَى مَخِيلَةً دَخَلَ وَخَرَجَ، وَأَقْبَلَ وَأَدْبَرَ، وَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، فَإِذَا مَطَرَتِ السَّمَاءُ سُرِّيَ، فَعَرَّفَتْهُ عَائِشَةُ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَمَا أَدْرِي لَعَلَّهُ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ﴾ [الأحقاف: 24] "
کتاب
بادل دیکھ کر کیا کہنا چاہیے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بادل دیکھتے تو (پریشان ہو جاتے)آپ داخل ہوتے، نکلتے اور آتے جاتے اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا، پھر جب آسمان سے بارش برستی تو آپ کی پریشانی ختم ہوتی۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی وجہ دریافت کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے کیا معلوم کہ وہ اسی طرح ہو جس طرح اللہ عزوجل نے فرمایا ہے:’’پھر جب انہوں نے بادل اپنی وادیوں کی طرف آتا دیکھا....۔‘‘
تشریح :
قوم عاد پر عذاب کی صورت یہ تھی کہ ان پر گہرے بادل آئے جسے انہوں نے رحمت سمجھا لیکن ان بادلوں میں عذاب الٰہی تھا۔ اس لیے بادلوں کو آتا دیکھ کر آپ پریشان ہو جاتے کہ کہیں ہم پر بھی عذاب نہ آجائے لیکن جب بارش ہو جاتی تو آپ کی کیفیت ختم ہو جاتی اور آپ خوش ہو جاتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بادلوں کو دیکھ کر اللہ کے عذاب سے پناہ طلب کرنی چاہیے اور اس کی رحمت کا سوال کرنا چاہیے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب بدء الخلق:۳۲۰۶۔ ومسلم:۸۹۹۔ والترمذي:۳۲۵۷۔
قوم عاد پر عذاب کی صورت یہ تھی کہ ان پر گہرے بادل آئے جسے انہوں نے رحمت سمجھا لیکن ان بادلوں میں عذاب الٰہی تھا۔ اس لیے بادلوں کو آتا دیکھ کر آپ پریشان ہو جاتے کہ کہیں ہم پر بھی عذاب نہ آجائے لیکن جب بارش ہو جاتی تو آپ کی کیفیت ختم ہو جاتی اور آپ خوش ہو جاتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بادلوں کو دیکھ کر اللہ کے عذاب سے پناہ طلب کرنی چاہیے اور اس کی رحمت کا سوال کرنا چاہیے۔