الادب المفرد - حدیث 903

كِتَابُ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ عِنْدَ التَّعَجُّبِ: سُبْحَانَ اللَّهِ حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ، فَأَخَذَ شَيْئًا فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، فَقَالَ: ((مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ، وَمَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ)) ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا، وَنَدَعُ الْعَمَلَ؟ قَالَ: ((اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ)) ، قَالَ: ((أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ)) ، ثُمَّ قَرَأَ: ﴿فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى﴾ [الليل: 6]

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 903

کتاب تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے میں تھے۔ آپ نے کوئی چیز اٹھائی اور اس سے زمین کریدنی شروع کر دی اور فرمایا:’’تم میں سے ہر ایک کا ٹھکانا جنت اور جہنم میں لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے لکھے پر بھروسا کرکے عمل ترک نہ کر دیں؟ آپ نے فرمایا:’’عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کو اس کی توفیق ملتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا:’’جو اہل سعادت ہیں ان کے لیے خوش بختی والے کام آسان کر دیے جاتے ہیں اور جو بدبخت ہیں ان کے لیے بدبختی والے کاموں کی آسانی کر دی جاتی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی:’’چنانچہ جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کی تصدیق کی....۔‘‘
تشریح : (۱)اس حدیث کا بظاہر باب سے کوئی تعلق نہیں الا یہ کہ اس میں معنوی طور پر تعجب کا ذکر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر ہمیں عمل بھی ترک کر دینے چاہئیں؟ (۲) یہ حدیث تقدیر کے معاملات میں فیصلہ کن ہے اور جبریہ اور قدریہ جیسے گمراہ فرقوں کا اس میں رد پایا جاتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو وحی الٰہی کے مطابق ربانی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ اسے اسباب کو تلاش کرنے کا پابند بنایا گیا ہے اگر وہ یہ طریقہ اختیار کرے گا تو اس کے لیے جنت کی راہ آسان ہو جائے گی۔ وہ مجبور محض نہیں کہ اسے پکڑ کر ایک راستے پر لگا دیا گیا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے عقل و شعور سے نوازا، انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے، کتابیں نازل کیں اور انسان کو خیر اور شر میں سے ایک کو عمل میں لانے کا اختیار بھی دیا، جیسے رزق کا معاملہ ہے کہ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ کس انسان کو کیا ملے گا؟ اب کوئی بھی انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ نہیں رہتا کہ جو میرے مقدر میں ہے مجھے مل جائے گا بلکہ وہ اسباب تلاش کرتا ہے، ان کو اختیار کرتا ہے اور انجام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح انسان کو اچھے اعمال کرکے اسباب مغفرت تلاش کرنے چاہئیں اور انجام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب التفسیر:۴۹۴۹، ۶۲۱۷۔ ومسلم:۲۶۴۷۔ وأبي داود:۴۶۹۴۔ والترمذي:۳۳۴۴۔ وابن ماجة:۷۸۔ (۱)اس حدیث کا بظاہر باب سے کوئی تعلق نہیں الا یہ کہ اس میں معنوی طور پر تعجب کا ذکر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر ہمیں عمل بھی ترک کر دینے چاہئیں؟ (۲) یہ حدیث تقدیر کے معاملات میں فیصلہ کن ہے اور جبریہ اور قدریہ جیسے گمراہ فرقوں کا اس میں رد پایا جاتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو وحی الٰہی کے مطابق ربانی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ کیونکہ اسے اسباب کو تلاش کرنے کا پابند بنایا گیا ہے اگر وہ یہ طریقہ اختیار کرے گا تو اس کے لیے جنت کی راہ آسان ہو جائے گی۔ وہ مجبور محض نہیں کہ اسے پکڑ کر ایک راستے پر لگا دیا گیا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے عقل و شعور سے نوازا، انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے، کتابیں نازل کیں اور انسان کو خیر اور شر میں سے ایک کو عمل میں لانے کا اختیار بھی دیا، جیسے رزق کا معاملہ ہے کہ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ کس انسان کو کیا ملے گا؟ اب کوئی بھی انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ نہیں رہتا کہ جو میرے مقدر میں ہے مجھے مل جائے گا بلکہ وہ اسباب تلاش کرتا ہے، ان کو اختیار کرتا ہے اور انجام اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح انسان کو اچھے اعمال کرکے اسباب مغفرت تلاش کرنے چاہئیں اور انجام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا چاہیے۔