الادب المفرد - حدیث 9

كِتَابُ بَابُ لِينِ الْكَلَامِ لِوَالِدَيْهِ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: ﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ [الإسراء: 24] ، قَالَ: لَا تَمْتَنِعْ مِنْ شَيْءٍ أَحَبَّاهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 9

کتاب والدین سے نرمی سے بات کرنا حضرت ہشام بن عروہ اپنے والد سے قرآن مجید کی آیت: ﴿وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: (اس کا مطلب ہے)کہ جو بات انہیں محبوب ہو اسے بجا لاؤ اور اس کے خلاف نہ کرو۔
تشریح : (۱)یہ تفسیر ہشام اپنے باپ عروہ سے بیان کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلف صالحین اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کرتے تھے کہ وہ مالی وراثت کے ساتھ ساتھ ان کے علم کے بھی وارث بنیں اور اپنے دین سے لگاؤ رکھنے والے ہوں۔ عصر حاضر میں علمائے کرام اپنی اولاد کو اکثر و بیشتر دینی تعلیم کی طرف نہیں لاتے، شاید اس کی بڑی وجہ عوام کا علماء کے ساتھ غیر مناسب رویہ ہے۔ اس لیے عوام کو علماء کے ساتھ اچھا رویہ رکھنا چاہیے اور علماء کو بھی اللہ کی رضا کی خاطر تکالیف برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کرنا چاہیے۔ (۲) والدین انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں کہ جن کے ساتھ حسن سلوک انسان کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں عروہ رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ والدین کا رویہ خواہ کیسا بھی ہو بہرحال اولاد کو نرمی اور شفقت کے ساتھ والدین سے گفتگو کرنی چاہیے۔ والدین سے انداز گفتگو عام لوگوں سے ہٹ کر ہونا چاہیے۔ اہل عرب (حفض الجناح)کو تواضع، عاجزی اور اپنے آپ کو مٹا دینے کے لیے بطور کنایہ استعمال کرتے ہیں، یعنی اپنے جذبات اور خواہشات کو والدین کے لیے قربان کردو اور کوئی ایسی بات یا کام نہ کرو جس سے ان کے احساسات مجروح ہوں الا کہ وہ معصیت کا حکم دیں تو اس صورت میں ان کی پیروی درست نہیں ہے۔
تخریج : صحیح: أخرجه ابن وهب فی الجامع: ۱۱۸۔ والمروزي فی البر والصلة: ۱۲۔ وهناد فی الزهد: ۹۶۷۔ وابن أبی الدنیا فی مکارم الاخلاق: ۲۲۲۔ (۱)یہ تفسیر ہشام اپنے باپ عروہ سے بیان کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلف صالحین اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کرتے تھے کہ وہ مالی وراثت کے ساتھ ساتھ ان کے علم کے بھی وارث بنیں اور اپنے دین سے لگاؤ رکھنے والے ہوں۔ عصر حاضر میں علمائے کرام اپنی اولاد کو اکثر و بیشتر دینی تعلیم کی طرف نہیں لاتے، شاید اس کی بڑی وجہ عوام کا علماء کے ساتھ غیر مناسب رویہ ہے۔ اس لیے عوام کو علماء کے ساتھ اچھا رویہ رکھنا چاہیے اور علماء کو بھی اللہ کی رضا کی خاطر تکالیف برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کرنا چاہیے۔ (۲) والدین انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں کہ جن کے ساتھ حسن سلوک انسان کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں عروہ رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ والدین کا رویہ خواہ کیسا بھی ہو بہرحال اولاد کو نرمی اور شفقت کے ساتھ والدین سے گفتگو کرنی چاہیے۔ والدین سے انداز گفتگو عام لوگوں سے ہٹ کر ہونا چاہیے۔ اہل عرب (حفض الجناح)کو تواضع، عاجزی اور اپنے آپ کو مٹا دینے کے لیے بطور کنایہ استعمال کرتے ہیں، یعنی اپنے جذبات اور خواہشات کو والدین کے لیے قربان کردو اور کوئی ایسی بات یا کام نہ کرو جس سے ان کے احساسات مجروح ہوں الا کہ وہ معصیت کا حکم دیں تو اس صورت میں ان کی پیروی درست نہیں ہے۔