الادب المفرد - حدیث 88

كِتَابُ بَابُ مَنْ دَعَا لِصَاحِبِهِ أَنْ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، وَمَا هُوَ إِلَّا أَنَا وَأُمِّي وَأُمُّ حَرَامٍ خَالَتِي، إِذْ دَخَلَ عَلَيْنَا فَقَالَ لَنَا: ((أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ؟)) وَذَاكَ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلَاةٍ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: فَأَيْنَ جَعَلَ أَنَسًا مِنْهُ؟ فَقَالَ: جَعَلَهُ عَنْ يَمِينِهِ؟ ثُمَّ صَلَّى بِنَا، ثُمَّ دَعَا لَنَا - أَهْلَ الْبَيْتِ - بِكُلِّ خَيْرٍ مِنْ خَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، فَقَالَتْ أُمِّي: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خُوَيْدِمُكَ، ادْعُ اللَّهَ لَهُ، فَدَعَا لِي بِكُلِّ خَيْرٍ، كَانَ فِي آخِرِ دُعَائِهِ أَنْ قَالَ: ((اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 88

کتاب اپنے ساتھی کے لیے مال و اولاد کی کثرت کی دعا کرنے کا بیان حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا (اور یہ اس دن کی بات ہے جب)صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم، میں، میری والدہ اور میری خالہ ام حرام تھے۔ جب آپ ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم سے فرمایا:’’کیا میں تمہیں نماز نہ پڑھاؤں؟‘‘ اور یہ (فرض)نماز کا وقت نہیں تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا:تو آپ نے انس کو کہاں کھڑا کیا؟ انہوں نے کہا:اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر ہم گھر والوں کے لیے دعا فرمائی (اور)دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی دعا کی۔ میری والدہ نے عرض کی:اللہ کے رسول! آپ کا ننھا خادم، اس کے لیے اللہ سے (خصوصی)دعا کریں۔ آپ نے میرے لے (دنیا و آخرت کی)ہر بھلائی کی دعا کی۔ آپ نے اپنی دعا کے آخر میں فرمایا:’’اے اللہ! اسے کثرت سے مال اور اولاد عطا فرما اور اسے برکت سے نواز۔‘‘
تشریح : (۱)صحیح بخاري (۱۹۸۲)میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا (حضرت انس کی والدہ)کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے کھجوریں اور گھی پیش کیے تو آپ نے فرمایا:’’میں روزے سے ہوں۔‘‘ اور پھر گھر کے ایک کونے میں فرض کے علاوہ نماز پڑھی....اور اہل خانہ کے لیے دعا کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ گھر میں اگر ایک سے زیادہ عورتیں ہوں اور کوئی سمجھ دار بچہ بھی ہو تو کسی بزرگ کا گھر آنا جائز ہے بشرطیکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ یہاں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جو کہ ام سلیم کے شوہر تھے، کا گھر پر موجود ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ (۲) بوقت ضرورت گھر میں نماز کی جماعت کروائی جاسکتی ہے بالخصوص بچوں اور عورتوں کے لیے گھر میں جماعت کروانا مستحب ہے۔ (۳) جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے وقت اگر دو مرد ہوں اور باقی عورتیں ہوں تو مرد دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے اور عورتیں پیچھے کھڑی ہوں گی۔ عورتیں بچوں کے ساتھ بھی صف بندی نہیں کرسکتیں خواہ ان کی اولاد ہی ہو۔ (۴) اہل خیر اور بزرگ اگر گھر تشریف لائیں تو ان کی تکریم کرنا اور ان کی مہمان نوازی کرنا ضروری ہے، نیز ان سے اپنے لیے اور اولاد کے لیے دعا کروانا جائز ہے۔ (۵) جب کسی عالم دین کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے کوئی شخص اس سے دعا کی درخواست کرے تو خلوص دل سے دعا کرنی چاہیے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم رضی اللہ عنہا اور ان کے اہل خانہ کے لیے کی۔ (۶) ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت اور با اثر علماء کو اپنی رعایا اور عوام کے گھر جانا چاہیے تاکہ ان کی عزت افزائی ہو۔ (۷) مال و دولت کی کثرت اللہ کی نعمت ہے بشرطیکہ انسان باغی اور سرکش نہ ہو۔ یہ آخرت کی بھلائی کے منافي نہیں ہے۔ (۸) حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لیے کی گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا لفظ بلفظ پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مال میں خوب برکت دی حتی کہ خود ان کا اپنا بیان ہے کہ مجھے میری بڑی بیٹی نے بتایا کہ میری پشت سے حجاج کے دور گورنری تک ایک سو بیس سے کچھ زائد افراد فوت ہوچکے تھے۔ (شرح صحیح الادب المفرد حدیث:۶۵)نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں انصار کا سب سے مال دار شخص ہوں۔ اتنی اولاد کا فوت ہو جانا آدمی کے لیے صدقہ اور غم کا باعث تو ہے لیکن اس پر صبر کے نتیجے میں اسی مقدار میں ثواب کی توقع بھی ہے۔ اور پھر آخرت میں وہ جہنم سے بچاؤ اور شفاعت کا ذریعہ بھی ہیں۔ اس لیے اتنی اولاد فوت ہونے کے باوجود وہ برکت کا ہی باعث ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کی اولاد اور اولاد کی اولاد کی تعداد ان کی زندگی میں ایک صد سے متجاوز تھی۔ (فتح الباري، ص:۲۲۹، ج:۴) (۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دائیں جانب کھڑا کیا جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اگر امام کے ساتھ صرف ایک مقتدی ہو تو وہ امام کی دائیں جانب کھڑا ہوگا، دوسرے یہ معلوم ہوا کہ وہ برابر کھڑا ہوگا جیسا عبارت النص سے ظاہر ہے۔ اگر تھوڑا پیچھے کھڑا ہونا مسنون ہوتا تو اس کا ذکر ضرور ہوتا۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب المساجد، باب جواز الجماعة في النافلة:۶۶۰۔ والنسائي:۸۰۲۔ الصحیحة:۱۴۰، ۱۴۱، ۲۲۱۴۔ (۱)صحیح بخاري (۱۹۸۲)میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا (حضرت انس کی والدہ)کے گھر تشریف لائے تو انہوں نے کھجوریں اور گھی پیش کیے تو آپ نے فرمایا:’’میں روزے سے ہوں۔‘‘ اور پھر گھر کے ایک کونے میں فرض کے علاوہ نماز پڑھی....اور اہل خانہ کے لیے دعا کی۔ اس سے معلوم ہوا کہ گھر میں اگر ایک سے زیادہ عورتیں ہوں اور کوئی سمجھ دار بچہ بھی ہو تو کسی بزرگ کا گھر آنا جائز ہے بشرطیکہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ یہاں ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جو کہ ام سلیم کے شوہر تھے، کا گھر پر موجود ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ (۲) بوقت ضرورت گھر میں نماز کی جماعت کروائی جاسکتی ہے بالخصوص بچوں اور عورتوں کے لیے گھر میں جماعت کروانا مستحب ہے۔ (۳) جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے وقت اگر دو مرد ہوں اور باقی عورتیں ہوں تو مرد دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے اور عورتیں پیچھے کھڑی ہوں گی۔ عورتیں بچوں کے ساتھ بھی صف بندی نہیں کرسکتیں خواہ ان کی اولاد ہی ہو۔ (۴) اہل خیر اور بزرگ اگر گھر تشریف لائیں تو ان کی تکریم کرنا اور ان کی مہمان نوازی کرنا ضروری ہے، نیز ان سے اپنے لیے اور اولاد کے لیے دعا کروانا جائز ہے۔ (۵) جب کسی عالم دین کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے کوئی شخص اس سے دعا کی درخواست کرے تو خلوص دل سے دعا کرنی چاہیے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم رضی اللہ عنہا اور ان کے اہل خانہ کے لیے کی۔ (۶) ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت اور با اثر علماء کو اپنی رعایا اور عوام کے گھر جانا چاہیے تاکہ ان کی عزت افزائی ہو۔ (۷) مال و دولت کی کثرت اللہ کی نعمت ہے بشرطیکہ انسان باغی اور سرکش نہ ہو۔ یہ آخرت کی بھلائی کے منافي نہیں ہے۔ (۸) حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لیے کی گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا لفظ بلفظ پوری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مال میں خوب برکت دی حتی کہ خود ان کا اپنا بیان ہے کہ مجھے میری بڑی بیٹی نے بتایا کہ میری پشت سے حجاج کے دور گورنری تک ایک سو بیس سے کچھ زائد افراد فوت ہوچکے تھے۔ (شرح صحیح الادب المفرد حدیث:۶۵)نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں انصار کا سب سے مال دار شخص ہوں۔ اتنی اولاد کا فوت ہو جانا آدمی کے لیے صدقہ اور غم کا باعث تو ہے لیکن اس پر صبر کے نتیجے میں اسی مقدار میں ثواب کی توقع بھی ہے۔ اور پھر آخرت میں وہ جہنم سے بچاؤ اور شفاعت کا ذریعہ بھی ہیں۔ اس لیے اتنی اولاد فوت ہونے کے باوجود وہ برکت کا ہی باعث ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کی اولاد اور اولاد کی اولاد کی تعداد ان کی زندگی میں ایک صد سے متجاوز تھی۔ (فتح الباري، ص:۲۲۹، ج:۴) (۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دائیں جانب کھڑا کیا جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اگر امام کے ساتھ صرف ایک مقتدی ہو تو وہ امام کی دائیں جانب کھڑا ہوگا، دوسرے یہ معلوم ہوا کہ وہ برابر کھڑا ہوگا جیسا عبارت النص سے ظاہر ہے۔ اگر تھوڑا پیچھے کھڑا ہونا مسنون ہوتا تو اس کا ذکر ضرور ہوتا۔