الادب المفرد - حدیث 878

كِتَابُ بَابُ التَّمَنِّي حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: أَرِقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَقَالَ: ((لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَجِيئُنِي فَيَحْرُسَنِي اللَّيْلَةَ)) ، إِذْ سَمِعْنَا صَوْتَ السِّلَاحِ، فَقَالَ: ((مَنْ هَذَا؟)) قَالَ: سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أَحْرُسُكَ، فَنَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَمِعْنَا غَطِيطَهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 878

کتاب تمنا کرنے کا بیان سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے چین ہوئے اور آپ کی نیند ختم ہوگئی تو آپ نے فرمایا:’’کاش میرے صحابہ میں سے کوئی نیک آدمی میرے پاس آکر پہرہ دیتا۔‘‘ تب اچانک ہم نے اسلحہ کی آواز سنی تو آپ نے پوچھا:’’یہ کون ہے؟‘‘ اس نے آواز دی:سعد۔ پھر سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! میں آپ کا پہرہ دینے کے لیے آیا ہوں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آرام سے سو گئے یہاں تک کہ ہم نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔
تشریح : (۱)ایک روایت میں ہے کہ لَوْ کا کلمہ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے، یعنی کاش یہ ہوتا تو ایسے نہ ہوتا۔ امام بخاری یہاں بتانا چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی تمنا مذموم نہیں بلکہ صرف وہ مذموم ہے جس میں تقدیر پر ناراضی کا اظہار ہو۔ امور خیر کی تمنا کرنا جس کا تعلق مستقبل سے ہو یا ماضی میں کوئی گناہ کرنے پر اظہار ندامت ہو، جائز ہے۔ (۲) یہ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد کا واقعہ ہے جب یہودیوں سے یا مشرکین مکہ کے حملے کا خطرہ تھا۔ بعد ازاں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی کہ وہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا تب آپ نے پہرہ لگانا چھوڑ دیا۔ (۳) وسائل کا استعمال توکل کے منافي نہیں ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہرہ دینے کی خواہش اور اس پر عمل نہ کرتے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب التمني، باب قوله صلي الله عليه وسلم لیت کذا وکذا:۷۲۳۱۔ ومسلم:۲۴۱۰۔ والترمذي:۳۷۵۶۔ (۱)ایک روایت میں ہے کہ لَوْ کا کلمہ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے، یعنی کاش یہ ہوتا تو ایسے نہ ہوتا۔ امام بخاری یہاں بتانا چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی تمنا مذموم نہیں بلکہ صرف وہ مذموم ہے جس میں تقدیر پر ناراضی کا اظہار ہو۔ امور خیر کی تمنا کرنا جس کا تعلق مستقبل سے ہو یا ماضی میں کوئی گناہ کرنے پر اظہار ندامت ہو، جائز ہے۔ (۲) یہ ہجرت مدینہ کے فوراً بعد کا واقعہ ہے جب یہودیوں سے یا مشرکین مکہ کے حملے کا خطرہ تھا۔ بعد ازاں جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی کہ وہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا تب آپ نے پہرہ لگانا چھوڑ دیا۔ (۳) وسائل کا استعمال توکل کے منافي نہیں ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہرہ دینے کی خواہش اور اس پر عمل نہ کرتے۔