كِتَابُ بَابُ مَنْ كَرِهَ الْغَالِبَ عَلَيْهِ الشِّعْرُ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: ﴿وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ﴾ [الشعراء: 224] إِلَى قَوْلِهِ: ﴿وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ﴾ [الشعراء: 226] ، فَنَسَخَ مِنْ ذَلِكَ وَاسْتَثْنَى فَقَالَ: ﴿إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا﴾ [الشعراء: 227] إِلَى قَوْلِهِ: ﴿يَنْقَلِبُونَ﴾ [الشعراء: 227]
کتاب
شعروں کی کثرت کے مکروہ ہونے کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ:’’اور شاعروں کی راہ پر تو گمراہ لوگ چلتے ہیں۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بہکے پھرتے ہیں اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں‘‘ کا عموم اللہ تعالیٰ نے منسوخ کر دیا ہے اور اہل ایمان کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور فرمایا:سوائے اہل ایمان کے جو ایمان لائے (اور اچھے کام کیے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کیا....)ان کو لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
تشریح :
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان کا مطلب ہے کہ ہر شاعر کا یہ حال نہیں۔ اہل ایمان اس مذمت سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ وہ اپنا زیادہ وقت اللہ کے ذکر میں گزارتے ہیں۔ ان کا غالب وقت شاعری میں نہیں گزرتا۔
تخریج :
صحیح:أخرجه أبي داود، کتاب الأدب:۵۰۱۶۔ انظر المشکاة:۴۸۰۵۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان کا مطلب ہے کہ ہر شاعر کا یہ حال نہیں۔ اہل ایمان اس مذمت سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ وہ اپنا زیادہ وقت اللہ کے ذکر میں گزارتے ہیں۔ ان کا غالب وقت شاعری میں نہیں گزرتا۔