كِتَابُ بَابُ الْوَلَدُ قُرَّةُ الْعَيْنِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: جَلَسْنَا إِلَى الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ يَوْمًا، فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ فَقَالَ: طُوبَى لِهَاتَيْنِ الْعَيْنَيْنِ اللَّتَيْنِ رَأَتَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ لَوَدِدْنَا أَنَّا رَأَيْنَا مَا رَأَيْتَ، وَشَهِدْنَا مَا شَهِدْتَ. فَاسْتُغْضِبَ، فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ، مَا قَالَ إِلَّا خَيْرًا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْهِ فَقَالَ: ((مَا يَحْمِلُ الرَّجُلُ عَلَى أَنْ يَتَمَنَّى مُحْضَرًا غَيَّبَهُ اللَّهُ عَنْهُ؟ لَا يَدْرِي لَوْ شَهِدَهُ كَيْفَ يَكُونُ فِيهِ؟ وَاللَّهِ، لَقَدْ حَضَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْوَامٌ كَبَّهُمُ اللَّهُ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ فِي جَهَنَّمَ، لَمْ يُجِيبُوهُ وَلَمْ يُصَدِّقُوهُ، أَوَلَا تَحْمَدُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ أَخْرَجَكُمْ لَا تَعْرِفُونَ إِلَّا رَبَّكُمْ، فَتُصَدِّقُونَ بِمَا جَاءَ بِهِ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ كُفِيتُمُ الْبَلَاءَ بِغَيْرِكُمْ، وَاللَّهِ لَقَدْ بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَشَدِّ حَالٍ بُعِثَ عَلَيْهَا نَبِيٌّ قَطُّ، فِي فَتْرَةٍ وَجَاهِلِيَّةٍ، مَا يَرَوْنَ أَنَّ دِينًا أَفْضَلُ مِنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ، فَجَاءَ بِفُرْقَانٍ فَرَّقَ بِهِ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَفَرَّقَ بِهِ بَيْنَ الْوَالِدِ وَوَلَدِهِ، حَتَّى إِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَيَرَى وَالِدَهُ أَوْ وَلَدَهُ أَوْ أَخَاهُ كَافِرًا، وَقَدْ فَتْحَ اللَّهُ قُفْلَ قَلْبِهِ بِالْإِيمَانِ، وَيَعْلَمُ أَنَّهُ إِنْ هَلَكَ دَخَلَ النَّارَ، فَلَا تَقَرُّ عَيْنُهُ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ حَبِيبَهُ فِي النَّارِ)) ، وَأنَّهَا لِلَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ﴾ [الفرقان: 74]
کتاب
(نیک)اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے
حضرت جبیر بن نفیر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی وہاں سے گزرا تو اس نے کہا:کتنی باسعادت ہیں یہ دونوں آنکھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، اللہ کی قسم! ہماری خواہش ہے کہ ہم بھی وہ دیکھتے جو آپ نے دیکھا ہے اور ہم بھی ان مواقع پر موجود ہوتے جن پر آپ موجود رہے ہیں۔ اس بات سے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے تو مجھے ان پر تعجب ہوا کہ (غصے والی کیا بات ہے)اس نے اچھی بات ہی کی ہے۔ پھر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:کیا وجہ ہے کہ کوئی شخص کسی موقع پر موجود ہونے کی تمنا کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے غائب رکھا ہے۔ نہ معلوم وہ اس موقع پر موجود ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا؟ اللہ کی قسم! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کتنے لوگ حاضر ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کے بل جہنم میں اوندھا کر دیا۔ (کیونکہ)انہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا نہ آپ کی تصدیق کی۔ کیا تم اس بات پر اللہ کی تعریف بیان نہیں کرتے کہ جب اس نے تمہیں پیدا فرمایا تو تم اپنے رب کے سوا کسی (غیر اللہ)کو نہیں جانتے، یعنی ہر طرف ایمان ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرتے ہو۔ (تصدیق و تکذیب کی)آزمائش دوسرے لوگوں کے ذریعے تم سے ٹل گئی۔ اللہ کی قسم! جیسے سخت حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے کوئی نبی ایسے حالات میں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ فترت اور جاہلیت کا زمانہ تھا (کہ سال ہا سال تک نبی مبعوث نہ ہوا تھا)بتوں کی عبادت سے بڑھ کر لوگ کسی دین کو افضل نہیں سمجھتے تھے۔ آپ فرقان لے کر آئے جس کے ذریعے حق اور باطل میں امتیاز کیا۔ باپ بیٹے کے درمیان جدائی کر دی یہاں تک ایسا موقع آگیا کہ ایک (مومن)آدمی اپنے والد، بیٹے اور بھائی کو کافر دیکھتا تھا اور خود اس کے دل کے تالے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ذریعے کھول دیے۔ وہ جانتا تھا کہ یقینا اگر وہ (اس کا باپ یا بھائی)ہلاک ہوگیا تو دوزخ میں جائے گا، لہٰذا (انہیں دیکھ کر)اس کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہوتی تھیں جبکہ وہ جانتا ہوتا کہ اس کا حبیب دوزخ میں جانے والا ہے۔ اور یہ (اولاد کی محبت)ایسی چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور وہ لوگ جو کہتے ہیں:اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما۔
تشریح :
(۱)آنکھوں کی ٹھنڈک کا مطلب یہ ہے کہ اولاد سے انسان کو سرور اور فرحت نصیب ہوتی ہے۔ تمنائیں اس طرح پوری ہوں کہ انسان راضی ہو جائے اور کہیں اور دیکھنے کی ضرورت نہ رہے تو ایسے موقع پر بھی یہ جملہ بولتے ہیں۔
(۲) اولاد فرمانبردار اور نیک ہو کہ جہنم سے بھی بچ جائے تو انسان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں،ا س سے صرف دنیا کی خوشحالی مراد نہیں ہے۔ حدیث کے آخر میں جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ (اولاد)اللہ کی اطاعت کے امور بجا لائیں تاکہ دنیا و آخرت میں ان والدین کی آنکھیں ٹھندی ہوں۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان بندے کے بیوی بچوں، بھائیوں اور دوست و احباب کو اپنا فرمانبردار بنائے کیونکہ اللہ کی قسم! مسلمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔
(۳) اس حدیث میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر بندہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو اور مسلمانوں والا ماحول میسر ہو تو اسے اس پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی شکر بجا لانا چاہیے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں کہ وہ کافر گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں اور کفر ہی کی حالت میں مرجاتے ہیں۔ اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ دوسری اس بات کی تمنا کہ اگر میں فلاں زمانے میں ہوتا تو یہ کرتا، یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے اس دور میں وہ ہوتا تو گمراہ ہو جاتا۔ تابعین کے جذبات اگرچہ بہت اچھے تھے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے، آپ کی مدد و نصرت کرتے لیکن حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھائی کہ تمہیں اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے، نہ معلوم تم اس دور میں ہوتے تو آپ کے حمایتی ہوتے یا مخالف۔ وہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا کہ آدمی خود مسلمان ہے جبکہ اس کی اولاد کافر ہے اسے یہی قلق رہتا کہ کہیں یہ حالت کفر میں مر کر جہنم واصل نہ ہو جائیں۔ تمہارے عزیز و اقارب اور بہن بھائی تو مسلمان ہیں اس لحاظ سے تم خوش قسمت ہو کیونکہ انسان خود جتنا آسائش اور نعمت میں ہو اگر وہ دیکھ رہا ہو کہ اس کی اولاد تکلیف اور جہنم میں جانے والی ہے تو اسے کسی صورت بھی سکون نہیں ہوگا۔
(۴) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نہایت کڑی آزمائشوں سے گزرے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات بھی بلند کیے۔
(۵) تابعین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضل کے معترف تھے اور ان سے محبت کرتے تھے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه أحمد:۲۳۸۱۰۔ وابن ابي عاصم في الاحاد:۲۹۲۔ والطبراني في الکبیر:۲۰؍ ۲۵۳۔ وابن حبان:۶۵۵۲۔ الصحیحة:۲۸۲۳۔
(۱)آنکھوں کی ٹھنڈک کا مطلب یہ ہے کہ اولاد سے انسان کو سرور اور فرحت نصیب ہوتی ہے۔ تمنائیں اس طرح پوری ہوں کہ انسان راضی ہو جائے اور کہیں اور دیکھنے کی ضرورت نہ رہے تو ایسے موقع پر بھی یہ جملہ بولتے ہیں۔
(۲) اولاد فرمانبردار اور نیک ہو کہ جہنم سے بھی بچ جائے تو انسان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں،ا س سے صرف دنیا کی خوشحالی مراد نہیں ہے۔ حدیث کے آخر میں جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ (اولاد)اللہ کی اطاعت کے امور بجا لائیں تاکہ دنیا و آخرت میں ان والدین کی آنکھیں ٹھندی ہوں۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان بندے کے بیوی بچوں، بھائیوں اور دوست و احباب کو اپنا فرمانبردار بنائے کیونکہ اللہ کی قسم! مسلمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔
(۳) اس حدیث میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اگر بندہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہو اور مسلمانوں والا ماحول میسر ہو تو اسے اس پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی شکر بجا لانا چاہیے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں کہ وہ کافر گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں اور کفر ہی کی حالت میں مرجاتے ہیں۔ اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ دوسری اس بات کی تمنا کہ اگر میں فلاں زمانے میں ہوتا تو یہ کرتا، یہ بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے اس دور میں وہ ہوتا تو گمراہ ہو جاتا۔ تابعین کے جذبات اگرچہ بہت اچھے تھے کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے، آپ کی مدد و نصرت کرتے لیکن حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھائی کہ تمہیں اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے، نہ معلوم تم اس دور میں ہوتے تو آپ کے حمایتی ہوتے یا مخالف۔ وہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا کہ آدمی خود مسلمان ہے جبکہ اس کی اولاد کافر ہے اسے یہی قلق رہتا کہ کہیں یہ حالت کفر میں مر کر جہنم واصل نہ ہو جائیں۔ تمہارے عزیز و اقارب اور بہن بھائی تو مسلمان ہیں اس لحاظ سے تم خوش قسمت ہو کیونکہ انسان خود جتنا آسائش اور نعمت میں ہو اگر وہ دیکھ رہا ہو کہ اس کی اولاد تکلیف اور جہنم میں جانے والی ہے تو اسے کسی صورت بھی سکون نہیں ہوگا۔
(۴) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نہایت کڑی آزمائشوں سے گزرے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات بھی بلند کیے۔
(۵) تابعین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضل کے معترف تھے اور ان سے محبت کرتے تھے۔