كِتَابُ بَابُ الشِّعْرُ حَسَنٌ كَحَسَنِ الْكَلَامِ وَمِنْهُ قَبِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَثَّلُ بِشَيْءٍ مِنَ الشِّعْرِ؟ فَقَالَتْ: كَانَ يَتَمَثَّلُ بِشَيْءٍ مِنْ شِعْرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ: ((وَيَأْتِيكَ بِالْأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوِّدِ))
کتاب
اچھے اور برے کلام کی طرح شعر بھی اچھے برے ہوتے ہیں
شریح رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا:کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شعر پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:آپ عبداللہ بن رواحہ کے شعروں میں سے بطور مثل پڑھا کرتے تھے:تیرے پاس وہ خبریں لائے گا جسے تونے تیار نہیں کیا ہوگا۔
تشریح :
یہ شعر طرفہ بن عبد کا ہے جو ابن رواحہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس میں مستقبل کی صورت حال کی عکاسی ہے کہ عنقریب ایسے حالات آجائیں گے کہ انسان کے پاس اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی خبریں آئیں گی۔ یہ حقیقت کے بہت قریب ہے اس لیے آپ یہ بیان کرتے تھے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه الترمذي، کتاب الأدب، باب ماجاء في إنشاد الشعر:۲۸۴۸۔ والنسائي في الکبریٰ:۱۰۷۶۹۔ انظر الصحیحة:۲۰۵۷۔
یہ شعر طرفہ بن عبد کا ہے جو ابن رواحہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس میں مستقبل کی صورت حال کی عکاسی ہے کہ عنقریب ایسے حالات آجائیں گے کہ انسان کے پاس اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی خبریں آئیں گی۔ یہ حقیقت کے بہت قریب ہے اس لیے آپ یہ بیان کرتے تھے۔