الادب المفرد - حدیث 855

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: إِذَا كَثُرَ الْأَخِلَّاءُ كَثُرَ الْغُرَمَاءُ، قُلْتُ لِمُوسَى: وَمَا الْغُرَمَاءُ؟ قَالَ: الْحُقُوقُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 855

کتاب باب سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:جب دوست زیادہ ہوں تو غرماء بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ یحییٰ بن ایوب کہتے ہیں:میں نے موسیٰ سے پوچھا:غرماء کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا:حقوق۔
تشریح : پہلی حدیث میں واللہ اعلم، یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں کے ساتھ چلنے کا ادب یہ ہے کہ ان کا کہا مانا جائے اور اگر وہ کسی کو سوار کرنے کا حکم دیں تو اس کو بجا لایا جائے۔ دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دوست زیادہ ہوں تو اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور حقوق بھی اسی قدر ہوتے ہیں اس لیے انسان کو ادا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ کس کو دے اور کسے محروم کرے تو اس میں بڑوں اور اہل علم و فضل کو مقدم رکھے۔ اس طرح اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
تخریج : صحیح:أخرجه ابن أبي الدنیا في العزلة:۱۵۰۔ والخطابي في العزلة ص:۴۰۔ پہلی حدیث میں واللہ اعلم، یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑوں کے ساتھ چلنے کا ادب یہ ہے کہ ان کا کہا مانا جائے اور اگر وہ کسی کو سوار کرنے کا حکم دیں تو اس کو بجا لایا جائے۔ دوسری حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دوست زیادہ ہوں تو اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں اور حقوق بھی اسی قدر ہوتے ہیں اس لیے انسان کو ادا کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ کس کو دے اور کسے محروم کرے تو اس میں بڑوں اور اہل علم و فضل کو مقدم رکھے۔ اس طرح اس کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔