الادب المفرد - حدیث 845

كِتَابُ بَابُ اسْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْيَتِهِ حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: دَعَوْتُ هَذَا، فَقَالَ: ((سَمُّوا بِاسْمِي، وَلَا تُكَنُّوا بِكُنْيَتِي))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 845

کتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور کنیت رکھنے کا حکم سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تھے کہ ایک آدمی نے کہا:اے ابوالقاسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا:میں نے اس یعنی کسی اور شخص کو بلایا تھا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے نام پر نام رکھا لیا کرو مگر میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔‘‘
تشریح : (۱)ابن الحنفیہ کی روایت میں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ذکر ہوئی ہے، وہ ان کے فہم کے مطابق ہے۔ جمہور کے نزدیک راجح بات دیگر دلائل کی روشنی میں یہ ہے کہ آپ کے نام پر نام رکھنا، یا آپ کی کنیت پر کنیت رکھنا یا دونوں کو جمع کرنا کہ نام محمد ہو اور کنیت ابوالقاسم، اب جائز ہے۔ یہ ممانعت آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دلائل کے مناقشے سے میری رائے یہ ہے کہ آپ کی کنیت پر کنیت رکھنا کسی صورت جائز نہیں ہے جیسا کہ امام شافعی اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ (شرح صحیح الأدب المفرد حدیث:۸۴۲) (۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوالقاسم صرف قاسم رضی اللہ عنہ کا باپ ہونے کی بنا پر نہیں تھے بلکہ آپ اللہ کا دیا ہوا دین اور دنیا تقسیم کرنے کی وجہ سے بھی ابوالقاسم تھے۔
تخریج : صحیح:انظر الحدیث:۸۳۷۔ (۱)ابن الحنفیہ کی روایت میں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت ذکر ہوئی ہے، وہ ان کے فہم کے مطابق ہے۔ جمہور کے نزدیک راجح بات دیگر دلائل کی روشنی میں یہ ہے کہ آپ کے نام پر نام رکھنا، یا آپ کی کنیت پر کنیت رکھنا یا دونوں کو جمع کرنا کہ نام محمد ہو اور کنیت ابوالقاسم، اب جائز ہے۔ یہ ممانعت آپ کی زندگی کے ساتھ خاص تھی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دلائل کے مناقشے سے میری رائے یہ ہے کہ آپ کی کنیت پر کنیت رکھنا کسی صورت جائز نہیں ہے جیسا کہ امام شافعی اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ (شرح صحیح الأدب المفرد حدیث:۸۴۲) (۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوالقاسم صرف قاسم رضی اللہ عنہ کا باپ ہونے کی بنا پر نہیں تھے بلکہ آپ اللہ کا دیا ہوا دین اور دنیا تقسیم کرنے کی وجہ سے بھی ابوالقاسم تھے۔