الادب المفرد - حدیث 84

كِتَابُ بَابُ الْوَلَدُ مَبْخَلَةٌ مَجْبَنَةٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمًا: وَاللَّهِ مَا عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ رَجُلٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ عُمَرَ، فَلَمَّا خَرَجَ رَجَعَ فَقَالَ: كَيْفَ حَلَفْتُ أَيْ بُنَيَّةُ؟ فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: أَعَزُّ عَلَيَّ، وَالْوَلَدُ أَلْوَطُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 84

کتاب اولاد بخل اور بزدلی کا سبب ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک روز سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کی قسم! مجھے روئے زمین پر عمر سے بڑھ کر کوئی محبوب نہیں۔ یہ کہہ کر باہر نکلے، واپس آئے تو فرمایا:بیٹی! میں نے کیسے قسم اٹھائی تھی؟ میں نے ان سے کہا (آپ نے ایسے قسم اٹھائی تھی)پھر فرمایا:(عمر)مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں، تاہم (محبوب بننے کے)اولاد زیادہ لائق ہے۔
تشریح : (۱)امام بخاری کا قائم کردہ یہ باب ایک حدیث رسول سے مستفاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِنَّ الْوَلَدَ مَنخَلَةٌ مَجْبَنةٌ))(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث:۳۶۶۶) ’’بلاشبہ اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔‘‘ (۲) اپنی بات کی تاکید کے لیے بوقت ضرورت قسم اٹھائی جاسکتی ہے، تاہم قسم صرف اللہ تعالیٰ کی اٹھانی جائز ہے۔ نیز اگر انسان جذبات میں آکر کوئی قسم اٹھا بیٹھے اور بعد میں اسے احساس ہو کہ حقیقت اس کے برعکس ہے تو اس سے رجوع کرسکتا ہے۔ اور یہ قسم لغو شمار ہوگی۔ (۳) محبت دو طرح کی ہوتی ہے:(۱)فطری اور طبعی محبت، (۲)کسی صفت اور خوبی کی بنا پر محبت۔ فطری اور طبعی محبت میں اولاد، والدین، بہن بھائیوں اور دیگر عزیزوں کی محبت شامل ہے اور یہ غیر ارادی طور پر ہوتی ہے۔ اس میں تمام انسان برابر ہیں تاہم دوسری صورت میں ہر انسان کی محبت کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ انسان جس قدر کسی کی خوبیوں سے متاثر ہو اسی قدر اس سے محبت کرتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد)سب سے زیادہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متاثر تھے اس لیے ان کے بارے میں اس محبت کا اظہار فرمایا۔ کیونکہ آپ صدیق کے مرتبے پر فائز تھے اس لیے جذبات میں معمولی سے غیر حقیقی اظہار کی بھی فوراً اصلاح کر دی کہ زبان اور دلی جذبات میں کسی تضاد کا اظہار نہ ہو۔ کیونکہ بشری کمزوری ہے کہ انسان کا دل دوسروں کی نسبت اولاد سے زیادہ متعلق ہوتا ہے۔
تخریج : حسن:رواه ابن أبی داؤد في مسند عاشر:۴۷۔ واللالکائي في السنة:۲۵۰۲۔ وابن عساکر في تاریخه:۴۴؍ ۲۴۷۔ (۱)امام بخاری کا قائم کردہ یہ باب ایک حدیث رسول سے مستفاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِنَّ الْوَلَدَ مَنخَلَةٌ مَجْبَنةٌ))(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث:۳۶۶۶) ’’بلاشبہ اولاد بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔‘‘ (۲) اپنی بات کی تاکید کے لیے بوقت ضرورت قسم اٹھائی جاسکتی ہے، تاہم قسم صرف اللہ تعالیٰ کی اٹھانی جائز ہے۔ نیز اگر انسان جذبات میں آکر کوئی قسم اٹھا بیٹھے اور بعد میں اسے احساس ہو کہ حقیقت اس کے برعکس ہے تو اس سے رجوع کرسکتا ہے۔ اور یہ قسم لغو شمار ہوگی۔ (۳) محبت دو طرح کی ہوتی ہے:(۱)فطری اور طبعی محبت، (۲)کسی صفت اور خوبی کی بنا پر محبت۔ فطری اور طبعی محبت میں اولاد، والدین، بہن بھائیوں اور دیگر عزیزوں کی محبت شامل ہے اور یہ غیر ارادی طور پر ہوتی ہے۔ اس میں تمام انسان برابر ہیں تاہم دوسری صورت میں ہر انسان کی محبت کا معیار مختلف ہوتا ہے۔ انسان جس قدر کسی کی خوبیوں سے متاثر ہو اسی قدر اس سے محبت کرتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد)سب سے زیادہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متاثر تھے اس لیے ان کے بارے میں اس محبت کا اظہار فرمایا۔ کیونکہ آپ صدیق کے مرتبے پر فائز تھے اس لیے جذبات میں معمولی سے غیر حقیقی اظہار کی بھی فوراً اصلاح کر دی کہ زبان اور دلی جذبات میں کسی تضاد کا اظہار نہ ہو۔ کیونکہ بشری کمزوری ہے کہ انسان کا دل دوسروں کی نسبت اولاد سے زیادہ متعلق ہوتا ہے۔