كِتَابُ بَابُ أَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَسَارٍ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((تَسَمُّوا بِاسْمِي، وَلَا تُكَنُّوا بِكُنْيَتِي، فَإِنِّي أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ))
کتاب
انبیاء علیہم السلام کے ناموں پر نام رکھنا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’میرے نام پر نام رکھ لیا کرو لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو، بلاشبہ میںہی ابوالقاسم ہوں۔‘‘
تشریح :
اس مسئلے میں اختلاف ہے راجح بات یہ ہے کہ یہ ممانعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھی تاکہ آپ کے ساتھ اشتباہ پیدا نہ ہو جیسا کہ آئندہ حدیث میں مذکور ہے کہ ایک صحابی نے کسی شخص کو بلایا جس کی کنیت ابوالقاسم تھی تو آپ نے سمجھا کہ مجھے بلایا ہے۔ اب جب یہ وجہ ختم ہوچکی ہے تو نام اور کنیت دونوں یا الگ الگ رکھنا جائز ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الادب:۶۱۸۸۔ ومسلم:۲۱۳۴۔ وأبي داود:۴۹۶۵۔ والترمذي:۲۸۴۱۔ وابن ماجة:۳۷۳۵۔
اس مسئلے میں اختلاف ہے راجح بات یہ ہے کہ یہ ممانعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھی تاکہ آپ کے ساتھ اشتباہ پیدا نہ ہو جیسا کہ آئندہ حدیث میں مذکور ہے کہ ایک صحابی نے کسی شخص کو بلایا جس کی کنیت ابوالقاسم تھی تو آپ نے سمجھا کہ مجھے بلایا ہے۔ اب جب یہ وجہ ختم ہوچکی ہے تو نام اور کنیت دونوں یا الگ الگ رکھنا جائز ہے۔