الادب المفرد - حدیث 827

كِتَابُ بَابُ مَنْ دَعَا صَاحِبَهُ فَيَخْتَصِرُ وَيَنْقُصُ مِنَ اسْمِهِ شَيْئًا حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يَا عَائِشُ، هَذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْكِ السَّلَامَ)) ، قَالَتْ: وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، قَالَتْ: وَهُوَ يَرَى مَا لَا أَرَى

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 827

کتاب جو اپنے ساتھی کو بلائے اور اس کا پورا نام لینے کی بجائے مختصر نام لے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے عائش! یہ جبرائیل ہیں جو تجھے سلام پیش کرتے ہیں۔‘‘ وہ فرماتی ہیں:میں نے کہا:ان پر بھی سلامتی، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔ وہ فرماتی ہیں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کچھ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھتی تھی۔
تشریح : (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا از راہ الفت و محبت کسی کا مختصر نام لیا جاسکتا ہے جسے ترخیم کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور لوگوں کو بھی اس انداز سے بلانا ثابت ہے جیسا کہ انجشہ کو انجش اور ابوہریرہ کو اباہر کہہ کر پکارنا ثابت ہے۔ (۲) کسی آدمی کے ذریعے کسی کو سلام بھیجنا جائز اور سلام کا جواب دینا بھی ضروری ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا۔ (۳) آخری جملے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ ہے کہ جبرائیل امین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آرہے تھے لیکن انہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ اسی طرح آپ کو کئی ایسے امور کا علم ہوتا جو عام آدمی کو نہیں ہوتا تھا جیسا کہ عذاب قبر، نماز میں پیچھے سے دیکھنا وغیرہ، تاہم یہ تمام معجزات ہیں ان سے آپ کے عالم الغیب ہونے کی دلیل لینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ کیونکہ بہت سے ایسے امور تھے جن کا آپ کو علم نہیں تھا۔ بعد ازاں بذریعہ وحی آپ کو علم ہوا۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکة....:۳۲۱۷، ۳۷۶۸۔ ومسلم، کتاب فضائل الصحابة:۲۴۴۷۔ وأبي داود:۵۲۳۲۔ والترمذي:۲۶۹۳۔ والنسائي:۳۴۰۶۔ (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا از راہ الفت و محبت کسی کا مختصر نام لیا جاسکتا ہے جسے ترخیم کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور لوگوں کو بھی اس انداز سے بلانا ثابت ہے جیسا کہ انجشہ کو انجش اور ابوہریرہ کو اباہر کہہ کر پکارنا ثابت ہے۔ (۲) کسی آدمی کے ذریعے کسی کو سلام بھیجنا جائز اور سلام کا جواب دینا بھی ضروری ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا۔ (۳) آخری جملے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ ہے کہ جبرائیل امین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آرہے تھے لیکن انہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ اسی طرح آپ کو کئی ایسے امور کا علم ہوتا جو عام آدمی کو نہیں ہوتا تھا جیسا کہ عذاب قبر، نماز میں پیچھے سے دیکھنا وغیرہ، تاہم یہ تمام معجزات ہیں ان سے آپ کے عالم الغیب ہونے کی دلیل لینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ کیونکہ بہت سے ایسے امور تھے جن کا آپ کو علم نہیں تھا۔ بعد ازاں بذریعہ وحی آپ کو علم ہوا۔