الادب المفرد - حدیث 82

كِتَابُ بَابُ فَضْلِ مَنْ عَالَ ابْنَتَهُ الْمَرْدُودَةَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((مَا أَطْعَمْتَ نَفْسَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ وَلَدَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ زَوْجَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ، وَمَا أَطْعَمْتَ خَادِمَكَ فَهُوَ لَكَ صَدَقَةٌ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 82

کتاب گھر واپس آجانے والی (طلاق یافتہ)بیٹی کی کفالت کرنے کی فضیلت حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:’’جو تو خود کھائے، وہ تیرے لیے صدقہ ہے اور جو تو اپنی اولاد کو کھلائے، وہ تیرے لیے صدقہ ہے، جو تو اپنی بیوی کو کھلائے، وہ تیرے لیے صدقہ ہے اور جو تو اپنے نوکر کو کھلائے وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔‘‘
تشریح : (۱)صدقہ زکاۃ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں یہ معنی مراد نہیں کیونکہ حدیث میں مذکور افراد کو زکاۃ نہیں دی جاسکتی۔ بعض علماء کے نزدیک اولاد بالغ شادی شدہ اور الگ تھلگ ہو، ان کا کاروبار بھی الگ ہو اور وہ فقراء و مساکین کے ضمن میں آتی ہو تو ان کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اس پوزیشن میں والد کی کفالت کی ذمہ داری ختم ہوتی ہے۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ انسان جو اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے، اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ میں کھا کر قوت و طاقت سے اللہ کی عبادت کروں گا، اور پہننے سے شرعی احکام کے مطابق ستر پوشی مقصود ہو تو یہ بھی اس کے نامہ اعمال میں صدقہ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح بیوی بچوں پر اگر اس لیے خرچ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پرورش کرنا میری ذمہ داری لگائی ہے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوگا۔ (۲) اس حدیث سے مال خرچ کرنے کی ترتیب کا علم ہوتا ہے کہ انسان کو سب سے پہلے اپنے اوپر خرچ کرنا چاہیے اور پھر بیوی بچوں اور ملازمین کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس سے بچ رہے تو دیگر عزیز و رشتہ داروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے۔ ان مصارف میں خرچ کرنے سے فرض ادا کرنے اور خرچ کرنے کا بھی ثواب ہوگا۔ یاد رہے کہ اگر والدین ضرورت مند ہوں تو وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ والدین پر زکوٰۃ کا مال خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر وہ معاشی لحاظ سے کمزور ہو جائیں تو اولاد کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ احسان کریں اور ان کی کفالت کریں، ایک حدیث میں:’’انت ومالک لابیک‘‘ (ابو داود:۳۵۳۰)تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ اس لیے والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی دنیاوی جروریات کے لیے اپنی اولاد سے مال وغیرہ لے لیں۔ جو آدمی والدین پر زکوٰۃ خرچ کرتا ہے گویا وہ اپنی ذاتی ضرورت کے لیے زکوٰۃ صرف کرتا ہے۔ جو ٹھیک نہیں۔ (۳) خود کھانا انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور ممکن نہیں، اسی طرح بیوی بچوں کو کھلانا بھی انسانیت کی بقا کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام اسی طرح بنایا ہے کہ اکیلا کوئی انسان یہاں آباد نہیں رہ سکتا، پھر کوئی کمزور ہے اور کوئی طاقت ور، کوئی مالدار تو کوئی فقیر۔ یہ سب قدرت الٰہی کے کرشمے ہیں۔ ہر شخص محنت کرتا ہے اور اپنے عیالداروں کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ کافر اور مسلمان دونوں اس معاملے میں یکساں ہیں، فرق یہ ہے کہ مسلمان اگر اپنی ان بنیادی ضرورتوں پر خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت رکھے تو اس کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور ثواب بھی نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ گویا خرچ کرنے پر اجر اس وقت ملتا ہے جب مقصود تقرب الٰہی ہو۔ جب مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا نہ ہو تو فرض تو ادا ہو جاتا ہے لیکن انسان ثواب سے محروم رہتا ہے۔ اس لیے فرض زکاۃ ادا کرتے وقت بھی ثواب کا حصول پیش نظر ہونا چاہیے۔ (۴) اس میں حصول مال کے لیے محنت اور کوشش کی بھی ترغیب ہے تاکہ انسان اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جانا اور محنت نہ کرنا ہرگز توکل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ انسان محنت کرے، خود کھائے، اپنے اہل و عیال کی ضرورتوں کو پورا کرے تو یہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے بشرطیکہ مقصود تقرب الٰہی ہو۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۱۷۱۷۹۔ والنسائي في الکبریٰ:۹۱۴۱۔ والطبراني في الکبیر:۲۰؍ ۲۶۸۔ الصحیحة:۴۹۲۔ (۱)صدقہ زکاۃ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں یہ معنی مراد نہیں کیونکہ حدیث میں مذکور افراد کو زکاۃ نہیں دی جاسکتی۔ بعض علماء کے نزدیک اولاد بالغ شادی شدہ اور الگ تھلگ ہو، ان کا کاروبار بھی الگ ہو اور وہ فقراء و مساکین کے ضمن میں آتی ہو تو ان کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اس پوزیشن میں والد کی کفالت کی ذمہ داری ختم ہوتی ہے۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ انسان جو اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے، اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ میں کھا کر قوت و طاقت سے اللہ کی عبادت کروں گا، اور پہننے سے شرعی احکام کے مطابق ستر پوشی مقصود ہو تو یہ بھی اس کے نامہ اعمال میں صدقہ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح بیوی بچوں پر اگر اس لیے خرچ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پرورش کرنا میری ذمہ داری لگائی ہے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوگا۔ (۲) اس حدیث سے مال خرچ کرنے کی ترتیب کا علم ہوتا ہے کہ انسان کو سب سے پہلے اپنے اوپر خرچ کرنا چاہیے اور پھر بیوی بچوں اور ملازمین کی ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس سے بچ رہے تو دیگر عزیز و رشتہ داروں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے۔ ان مصارف میں خرچ کرنے سے فرض ادا کرنے اور خرچ کرنے کا بھی ثواب ہوگا۔ یاد رہے کہ اگر والدین ضرورت مند ہوں تو وہ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ والدین پر زکوٰۃ کا مال خرچ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اگر وہ معاشی لحاظ سے کمزور ہو جائیں تو اولاد کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ احسان کریں اور ان کی کفالت کریں، ایک حدیث میں:’’انت ومالک لابیک‘‘ (ابو داود:۳۵۳۰)تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ اس لیے والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی دنیاوی جروریات کے لیے اپنی اولاد سے مال وغیرہ لے لیں۔ جو آدمی والدین پر زکوٰۃ خرچ کرتا ہے گویا وہ اپنی ذاتی ضرورت کے لیے زکوٰۃ صرف کرتا ہے۔ جو ٹھیک نہیں۔ (۳) خود کھانا انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور ممکن نہیں، اسی طرح بیوی بچوں کو کھلانا بھی انسانیت کی بقا کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام اسی طرح بنایا ہے کہ اکیلا کوئی انسان یہاں آباد نہیں رہ سکتا، پھر کوئی کمزور ہے اور کوئی طاقت ور، کوئی مالدار تو کوئی فقیر۔ یہ سب قدرت الٰہی کے کرشمے ہیں۔ ہر شخص محنت کرتا ہے اور اپنے عیالداروں کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ کافر اور مسلمان دونوں اس معاملے میں یکساں ہیں، فرق یہ ہے کہ مسلمان اگر اپنی ان بنیادی ضرورتوں پر خرچ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت رکھے تو اس کی ضرورت بھی پوری ہو جائے گی اور ثواب بھی نامہ اعمال میں لکھا جائے گا۔ گویا خرچ کرنے پر اجر اس وقت ملتا ہے جب مقصود تقرب الٰہی ہو۔ جب مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا نہ ہو تو فرض تو ادا ہو جاتا ہے لیکن انسان ثواب سے محروم رہتا ہے۔ اس لیے فرض زکاۃ ادا کرتے وقت بھی ثواب کا حصول پیش نظر ہونا چاہیے۔ (۴) اس میں حصول مال کے لیے محنت اور کوشش کی بھی ترغیب ہے تاکہ انسان اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جانا اور محنت نہ کرنا ہرگز توکل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ انسان محنت کرے، خود کھائے، اپنے اہل و عیال کی ضرورتوں کو پورا کرے تو یہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے بشرطیکہ مقصود تقرب الٰہی ہو۔