الادب المفرد - حدیث 815

كِتَابُ بَابُ أَحَبِّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَدَّثَنَا صَدَقَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلَامٌ فَسَمَّاهُ: الْقَاسِمَ، فَقُلْنَا: لَا نُكَنِّيكَ أَبَا الْقَاسِمِ وَلَا كَرَامَةَ، فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((سَمِّ ابْنَكَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 815

کتاب اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نام حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس نے اس کا نام قاسم رکھا۔ ہم نے کہا:ہم تمہیں ابو القاسم کہہ کے پکاریں گے اور نہ اعزاز دیں گے۔ اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا:’’اپنے بیٹے کا نام عبدالرحمن رکھ لو۔‘‘
تشریح : (۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کسی دوسرے کو اس کنیت سے پکارنا گوارہ نہ کیا۔ (۲) آپ جب نام بدلتے تو اچھا نام رکھتے تھے۔ گویا عبدالرحمن آپ کے نزدیک قاسم نام سے بھی زیادہ بہتر تھا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الادب، باب أحب الاسماء الی اللّٰه عزوجل:۶۱۸۶۔ ومسلم:۲۱۳۳۔ (۱)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابو القاسم تھی اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کسی دوسرے کو اس کنیت سے پکارنا گوارہ نہ کیا۔ (۲) آپ جب نام بدلتے تو اچھا نام رکھتے تھے۔ گویا عبدالرحمن آپ کے نزدیک قاسم نام سے بھی زیادہ بہتر تھا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔