الادب المفرد - حدیث 807

كِتَابُ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ: يَا بُنَيَّ، لِمَنْ أَبُوهُ لَمْ يُدْرِكِ الْإِسْلَامَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ سَلْمٍ الْعَلَوِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ: كُنْتُ خَادِمًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكُنْتُ أَدْخُلُ بِغَيْرِ اسْتِئْذَانٍ، فَجِئْتُ يَوْمًا، فَقَالَ: " كَمَا أَنْتَ يَا بُنَيَّ، فَإِنَّهُ قَدْ حَدَثَ بَعْدَكَ أَمْرٌ: لَا تَدْخُلَنَّ إِلَّا بِإِذْنٍ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 807

کتاب جس کا باپ مسلمان نہ ہو اسے یا بنیّ کہہ کر پکارنے کا حکم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم تھا اور بغیر اجازت کے ہی آپ کے گھر چلا جاتا تھا، چنانچہ ایک دن میں آیا تو آپ نے فرمایا:’’اے ۱میرے بیٹے ٹھہر جاؤ، تیرے جانے کے بعد نیا حکم نازل ہوا ہے۔ اب بغیر اجازت کے اندر ہرگز نہیں آنا۔‘‘
تشریح : (۱)ترجمۃ الباب سے اس کا تعلق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کو بیٹا کہہ بلایا، اس سے معلوم ہوا کہ استاد اپنے شاگردوں کو ازراہ شفقت بیٹا کہہ کر پکار سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ (۲) یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی دلیل ہے کہ آپ نے نہایت خوبصورت انداز میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو شرعی حکم سکھایا۔ نیز معلوم ہوا کہ سمجھ دار بچوں کو شرعی احکام سکھانے چاہئیں خواہ وہ بلوغت کی عمر کو نہ بھی پہنچے ہوں۔ (۳) یہ حکم پردے کے احکام نازل ہونے کے بعد دیا گیا۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۱۳۱۷۶۔ والطحاوي في شرح معاني الآثار:۴؍ ۳۳۳۔ والبیهقي في شعب الایمان:۷۷۹۵۔ انظر الصحیحة:۲۹۵۷۔ (۱)ترجمۃ الباب سے اس کا تعلق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کو بیٹا کہہ بلایا، اس سے معلوم ہوا کہ استاد اپنے شاگردوں کو ازراہ شفقت بیٹا کہہ کر پکار سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ (۲) یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی دلیل ہے کہ آپ نے نہایت خوبصورت انداز میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو شرعی حکم سکھایا۔ نیز معلوم ہوا کہ سمجھ دار بچوں کو شرعی احکام سکھانے چاہئیں خواہ وہ بلوغت کی عمر کو نہ بھی پہنچے ہوں۔ (۳) یہ حکم پردے کے احکام نازل ہونے کے بعد دیا گیا۔