كِتَابُ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ: فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَأَبُو مُوسَى يَقْرَأُ، فَقَالَ: ((مَنْ هَذَا؟)) فَقُلْتُ: أَنَا بُرَيْدَةُ جُعِلْتُ فِدَاكَ، قَالَ: ((قَدْ أُعْطِيَ هَذَا مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ))
کتاب
کسی آدمی کا یہ کہنا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لے گئے جبکہ ابو موسیٰ وہاں تلاوت کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا:’’کون ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا:’’آپ پر قربان جاؤں، میں بریدہ ہوں۔‘‘ آپ نے فرمایا:’’اس کو آل داؤد کی خوش آوازی سے ایک حصہ دیا گیا ہے۔‘‘
تشریح :
(۱)آل داؤد سے مراد یہاں خود سیدنا داؤد علیہ السلام ہیں جنہیں نہایت خوبصورت اور پر تأثیر آواز دی گئی تھی۔ مزمار اگرچہ غنا اور ترنم کو کہتے ہیں لیکن یہاں خوبصورت آواز مراد ہے۔
(۲) اس روایت میں فداہ أبی و امی نہیں بلکہ صرف اپنی ذات کی فدویت کا ذکر ہے۔ گزشتہ باب سے اس کا تعلق زیادہ مناسب ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه مسلم، کتاب صلاة المسافرین:۷۹۳۔ انظر صحیح أبي داود:۱۳۴۱۔
(۱)آل داؤد سے مراد یہاں خود سیدنا داؤد علیہ السلام ہیں جنہیں نہایت خوبصورت اور پر تأثیر آواز دی گئی تھی۔ مزمار اگرچہ غنا اور ترنم کو کہتے ہیں لیکن یہاں خوبصورت آواز مراد ہے۔
(۲) اس روایت میں فداہ أبی و امی نہیں بلکہ صرف اپنی ذات کی فدویت کا ذکر ہے۔ گزشتہ باب سے اس کا تعلق زیادہ مناسب ہے۔