الادب المفرد - حدیث 803

كِتَابُ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ: نَفْسِي لَكَ الْفِدَاءُ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ الْبَقِيعِ، وَانْطَلَقْتُ أَتْلُوهُ، فَالْتَفَتَ فَرَآنِي فَقَالَ: ((يَا أَبَا ذَرٍّ)) ، فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَسَعْدَيْكَ، وَأَنَا فِدَاؤُكَ، فَقَالَ: ((إِنَّ الْمُكْثِرِينَ هُمُ الْمُقِلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا فِي حَقٍّ)) ، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَقَالَ: ((هَكَذَا)) ثَلَاثًا ثُمَّ عَرَضَ لَنَا أُحُدٌ فَقَالَ: ((يَا أَبَا ذَرٍّ)) ، فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، وَأَنَا فِدَاؤُكَ، قَالَ: " مَا يَسُرُّنِي أَنَّ أُحُدًا لِآلِ مُحَمَّدٍ ذَهَبًا، فَيُمْسِي عِنْدَهُمْ دِينَارٌ - أَوْ قَالَ: مِثْقَالٌ " ثُمَّ عَرَضَ لَنَا وَادٍ، فَاسْتَنْتَلَ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ حَاجَةً، فَجَلَسْتُ عَلَى شَفِيرٍ، وَأَبْطَأَ عَلَيَّ. قَالَ: فَخَشِيتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ كَأَنَّهُ يُنَاجِي رَجُلًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيَّ وَحْدَهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي كُنْتَ تُنَاجِي؟ فَقَالَ: ((أَوَ سَمِعْتَهُ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَبَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ)) ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: ((نَعَمْ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 803

کتاب کسی سے کہنا، میری جان آپ پر قربان حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی طرف تشریف لے گئے اور میں بھی آپ کے پیچھے چلا۔ آپ نے التفات فرمایا تو مجھے دیکھ کر فرمایا:’’اے ابو ذر!‘‘ میں نے عرض کیا:میں حاضر ہوں اور تعمیل ارشاد کے لیے موجود، نیز آپ پر قربان ہوں۔ آپ نے فرمایا:’’زیادہ مال والے ہی روز قیامت قلت کا شکار ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے راہ حق میں اس اس طرح لٹایا۔‘‘ میں نے عرض کیا:اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے تین مرتبہ ’’اس طرح‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ پھر احد پہاڑ ہمارے سامنے ظاہر ہوا تو آپ نے فرمایا:’’اے ابوذر!‘‘ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول میں حاضر ہوں اور تعمیل ارشاد کے لیے تیار ہوں اور آپ پر فدا ہوں۔ آپ نے فرمایا:’’مجھے یہ بات خوش نہیں کرتی کہ آل محمد کے لیے احد پہاڑ سونے کا بن جائے اور شام تک ان کے پاس ایک درہم یا ایک مثقال بھی باقی ہو۔‘‘ پھر ہمارے سامنے ایک وادی آگئی تو آپ آگے بڑھ گئے۔ میں سمجھا کہ آپ کو کوئی حاجت ہوگی، چنانچہ میں وادی کے کنارے بیٹھ گیا۔ آپ نے واپس آنے میں کافي دیر کر دی۔ وہ کہتے ہیں:مجھے آپ کے بارے میں خطرہ محسوس ہوا (کہ کہیں دشمن نہ آگیا ہو)پھر میں نے سنا جیسے آپ کسی آدمی سے سرگوشی کر رہے ہیں لیکن آپ اکیلے ہی واپس تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! آپ کس آدمی سے سرگوشی کر رہے تھے؟ آپ نے فرمایا:کیا تم نے سن لیا؟‘‘ میں نے عرض کیا:جی ہاں! آپ نے فرمایا:’’وہ جبرائیل تھے۔ میرے پاس یہ خوشخبری دینے کے لیے آئے تھے کہ میری امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے کہا:خواہ وہ زانی اور چور ہو؟ آپ نے فرمایا:ہاں۔‘‘
تشریح : (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص سے اس طرح کہنا جائز ہے کہ میں آپ پر ’’قربان جاؤں‘‘ یہ اظہار محبت کا ایک انداز ہے۔ (۲) اگر اللہ کا تقوی ہو اور انسان مالی حقوق کا خیال رکھنے والا ہو تو پھر مالداری اچھی چیز ہے۔ بصورت دیگر یہ ہلاکت کا باعث ہے، دیکھیے، حدیث:۳۰۱ کے فوائد۔ نیز معلوم ہوا کہ مال کو مختلف مصارف میں خرچ کرنا چاہیے۔ اور جلد از جلد مستحق تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۳) اس سے عقیدہ توحید کی عظمت اور شرک کی قباحت بھی معلوم ہوئی۔ توحید کی موجودگی میں بڑے سے بڑا گناہ بھی اللہ کے فضل سے چھوٹا ہو جاتا ہے اور شرک کی موجودگی میں بڑے سے بڑا نیک عمل بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الرقاق:۶۴۴۴۔ ومسلم:۹۴۔ والترمذي:۲۶۴۴۔ (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص سے اس طرح کہنا جائز ہے کہ میں آپ پر ’’قربان جاؤں‘‘ یہ اظہار محبت کا ایک انداز ہے۔ (۲) اگر اللہ کا تقوی ہو اور انسان مالی حقوق کا خیال رکھنے والا ہو تو پھر مالداری اچھی چیز ہے۔ بصورت دیگر یہ ہلاکت کا باعث ہے، دیکھیے، حدیث:۳۰۱ کے فوائد۔ نیز معلوم ہوا کہ مال کو مختلف مصارف میں خرچ کرنا چاہیے۔ اور جلد از جلد مستحق تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۳) اس سے عقیدہ توحید کی عظمت اور شرک کی قباحت بھی معلوم ہوئی۔ توحید کی موجودگی میں بڑے سے بڑا گناہ بھی اللہ کے فضل سے چھوٹا ہو جاتا ہے اور شرک کی موجودگی میں بڑے سے بڑا نیک عمل بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔