الادب المفرد - حدیث 800

كِتَابُ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ: إِنِّي كَسْلَانُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: لَا تَدَعْ قِيَامَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَذَرُهُ، وَكَانَ إِذَا مَرِضَ أَوْ كَسِلَ صَلَّى قَاعِدًا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 800

کتاب آدمی کا خود کو سست کہنے کا بیان حضرت عبداللہ بن ابی موسیٰ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا:تم رات کا قیام نہ چھوڑنا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نہیں چھوڑتے تھے۔ جب آپ بیمار ہو جاتے یا طبیعت میں سستی ہوتی تو بیٹھ کر پڑھ لیتے۔
تشریح : (۱)کسی کام پر قدرت کے باوجود اسے ترک کر دینا سستی کہلاتا ہے اور اگر کرنے کی قدرت نہ ہو تو عجز کہلاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سست ہونے کا لفظ بولا تو خود اپنے لیے بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ (۲) اس سے قیام اللیل کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خوب اہتمام کرتے تھے۔ ایک حدیث میں اسے سابقہ نیک لوگوں کی عادت قرار دیا گیا ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، کتاب التطوع، باب قیام اللیل:۱۳۰۷۔ (۱)کسی کام پر قدرت کے باوجود اسے ترک کر دینا سستی کہلاتا ہے اور اگر کرنے کی قدرت نہ ہو تو عجز کہلاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سست ہونے کا لفظ بولا تو خود اپنے لیے بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ (۲) اس سے قیام اللیل کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا خوب اہتمام کرتے تھے۔ ایک حدیث میں اسے سابقہ نیک لوگوں کی عادت قرار دیا گیا ہے۔