الادب المفرد - حدیث 8

كِتَابُ بَابُ لِينِ الْكَلَامِ لِوَالِدَيْهِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ مِخْرَاقٍ قَالَ: حَدَّثَنِي طَيْسَلَةُ بْنُ مَيَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّجَدَاتِ، فَأَصَبْتُ ذُنُوبًا لَا أَرَاهَا إِلَّا مِنَ الْكَبَائِرِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا هِيَ؟ قُلْتُ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: لَيْسَتْ هَذِهِ مِنَ الْكَبَائِرِ، هُنَّ تِسْعٌ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَقَتْلُ نَسَمَةٍ، وَالْفِرَارُ مِنَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَةِ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، وَإِلْحَادٌ فِي الْمَسْجِدِ، وَالَّذِي يَسْتَسْخِرُ، وَبُكَاءُ الْوَالِدَيْنِ مِنَ الْعُقُوقِ. قَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ: أَتَفْرَقُ النَّارَ، وَتُحِبُّ أَنْ تَدْخُلَ الْجَنَّةَ؟ قُلْتُ: إِي وَاللَّهِ، قَالَ: أَحَيٌّ وَالِدُكَ؟ قُلْتُ: عِنْدِي أُمِّي، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَوْ أَلَنْتَ لَهَا الْكَلَامَ، وَأَطْعَمْتَهَا الطَّعَامَ، لَتَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مَا اجْتَنَبْتَ الْكَبَائِرَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 8

کتاب والدین سے نرمی سے بات کرنا طیسلہ بن میاس کہتے ہیں کہ میں خارجیوں کے ساتھ تھا مجھ سے کچھ گناہ سرزد ہوگئے جنہیں میں کبیرہ گناہ سمجھتا تھا۔ میں نے ان کا ذکر ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کیا تو انہوں نے کہا: وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: فلاں فلاں۔ انہوں نے فرمایا: یہ کبیرہ نہیں ہیں، کبیرہ تو صرف نو (۹)ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، (ناحق)کسی جان کو قتل کرنا، میدان جنگ سے بھاگنا، کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگانا، سود کھانا، یتیم کا مال ہتھیانا، مسجد میں خلاف شرع کام کرنا، کسی سے ٹھٹھا مذاق کرنا، والدین کی نافرمانی کرکے انہیں رلانا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا تو آگ سے ڈرتا اور جنت میں داخل ہونا پسند کرتا ہے۔ میں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم! انہوں نے فرمایا: کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ میں نے کہا: میری ماں زندہ ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تو اس سے نرمی سے گفتگو کرے گا اور اسے کھانا کھلائے گا اور کبیرہ گناہوں سے بھی بچتا رہے گا تو ضرور جنت میں داخل ہوگا۔
تشریح : (۱)مع النجدات: نجدہ بن عامر خارجی کی طرف منسوب لوگوں کو نجدات کہتے ہیں اور یہ جارجیوں کا گروہ تھا جن کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ (۲) فأصبت ....الکبائر: کبیرہ گناہ کی بابت درج ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے: ۱۔ علمائے کرام نے کبیرہ گناہ کی کئی ایک تعریفات کی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے بالضبط کوئی تعریف ثابت نہیں ہے۔ درج ذیل تعریف زیادہ جامع معلوم ہوتی ہے: ’’ہر وہ گناہ جس پر حد جاری ہو یا دنیوی یا اخروی وعید ہو یعنی جہنم وغیرہ کی یا کرنے والے کو معلون قرار دیا گیا ہو۔‘‘ ۲۔ کبیرہ گناہ کی معافی: ....کبیرہ گناہ کی معافی کے متعلق بھی علماء میں اختلاف ہے۔ خارجیوں کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا حکم کافر اور مشرک والا ہے۔ اس کے برعکس بعض کے نزدیک کبیرہ گناہ سے انسان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اہل سنت کے مابین بھی اختلاف ہے کہ کیا کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے یا محض نیک اعمال سے بھی کبیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟ اگرچہ علماء کی اکثریت کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ کو شرط قرار دیتی ہے، تاہم بعض علماء کے نزدیک اعمال صالحہ بھی کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ صحیح اور درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ کو شرط قرار دینا محل نظر ہے۔ اس لیے کہ بہت سارے اعمال کو مطلق گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے۔ بالخصوص جب کوئی عمل گناہ کی معافی کی نیت سے کیا جائے تو وہ کفارہ بننے کے زیادہ اولیٰ ہے۔ ۳۔ کبیرہ گناہوں کی تعداد: ....کبیرہ گناہوں کی تعداد کے متعلق بھی مختلف اقوال ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث میں صرف نو اعمال کو کبیرہ گناہ شمار کیا گیا ہے جبکہ بعض دوسری روایات میں اور بھی کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے۔ بعض نے ان کی تعداد سترہ بتائی ہے اور بعض کے نزدیک ان کی تعداد ستر تک پہنچ جاتی ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے (الزواجر عن اقتراف الکبائر)میں کبیرہ گناہوں کی تعداد دو سو چالیس (۲۴۰)بتائی ہے۔ علامہ سعد تفتازانی صغیرہ اور کبیرہ کی عام تقسیم کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ لیکن ان کا موقف بہرحال درست نہیں ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صغیرہ اور کبیرہ کے تصور کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ توبہ سے کبیرہ گناہ بھی مٹ جاتے ہیں اور اگر توبہ نہ کی جائے تو معمولی معمولی گناہ بھی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ (ملخص: فضل اللہ الصمد) ۴۔ دوستوں کی صحبت کا انسان پر بہت اثر ہوتا ہے اس لیے دوستوں کا انتخاب دیکھ کر کرنا چاہیے۔ طیسلہ بن میاس خارجیوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے ان سے متاثر ہوئے۔ برے دوست کی مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹی کے ساتھ دی ہے کہ جس کا دھواں پاس بیٹھنے والے کو کم از کم ضرور پہنچتا ہے۔ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کی نافرمانی اور ان سے بدسلوکی بھی کبیرہ گناہ ہے۔ ۵۔ أحَیّ والداك: ابن عمر رضی اللہ عنہ کا والدین کی زندگی کے متعلق سوال کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک انسان کے جنت میں جانے کا سبب ہے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک انسان کے عام گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور جو شخص حقیقت میں جہنم سے ڈرتا ہے اور جنت میں جانے کا خواہش مند ہے اسے اپنے اخلاق اور اعمال درست کرنے چاہئیں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ جہنم سے ڈرتا ہے لیکن اس کے اعمال درست نہیں ہیں تو گویا وہ شخص حقیقت میں اللہ سے ڈرتا ہی نہیں ہے اور اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے۔ ۶۔ اولاد والدین کا سرمایہ ہے اور ان کے لیے اولاد کا مال حلال ہے۔ وہ دستور کے مطابق اولاد کا مال ان کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن اگر اولاد دل کی خوشی سے والدین پر خرچ کرتی ہے تو ان کا یہ خرچ کرنا بھی اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں میں شمار کرکے ان کے جنت میں جانے کا سبب بنا دیتا ہے۔
تخریج : صحیح: الصحیحة: ۲۸۹۸۔ (۱)مع النجدات: نجدہ بن عامر خارجی کی طرف منسوب لوگوں کو نجدات کہتے ہیں اور یہ جارجیوں کا گروہ تھا جن کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ (۲) فأصبت ....الکبائر: کبیرہ گناہ کی بابت درج ذیل باتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے: ۱۔ علمائے کرام نے کبیرہ گناہ کی کئی ایک تعریفات کی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے بالضبط کوئی تعریف ثابت نہیں ہے۔ درج ذیل تعریف زیادہ جامع معلوم ہوتی ہے: ’’ہر وہ گناہ جس پر حد جاری ہو یا دنیوی یا اخروی وعید ہو یعنی جہنم وغیرہ کی یا کرنے والے کو معلون قرار دیا گیا ہو۔‘‘ ۲۔ کبیرہ گناہ کی معافی: ....کبیرہ گناہ کی معافی کے متعلق بھی علماء میں اختلاف ہے۔ خارجیوں کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس کا حکم کافر اور مشرک والا ہے۔ اس کے برعکس بعض کے نزدیک کبیرہ گناہ سے انسان کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اہل سنت کے مابین بھی اختلاف ہے کہ کیا کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے یا محض نیک اعمال سے بھی کبیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟ اگرچہ علماء کی اکثریت کبیرہ گناہ کی معافی کے لیے توبہ کو شرط قرار دیتی ہے، تاہم بعض علماء کے نزدیک اعمال صالحہ بھی کبیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ صحیح اور درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ کو شرط قرار دینا محل نظر ہے۔ اس لیے کہ بہت سارے اعمال کو مطلق گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے۔ بالخصوص جب کوئی عمل گناہ کی معافی کی نیت سے کیا جائے تو وہ کفارہ بننے کے زیادہ اولیٰ ہے۔ ۳۔ کبیرہ گناہوں کی تعداد: ....کبیرہ گناہوں کی تعداد کے متعلق بھی مختلف اقوال ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث میں صرف نو اعمال کو کبیرہ گناہ شمار کیا گیا ہے جبکہ بعض دوسری روایات میں اور بھی کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے۔ بعض نے ان کی تعداد سترہ بتائی ہے اور بعض کے نزدیک ان کی تعداد ستر تک پہنچ جاتی ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے (الزواجر عن اقتراف الکبائر)میں کبیرہ گناہوں کی تعداد دو سو چالیس (۲۴۰)بتائی ہے۔ علامہ سعد تفتازانی صغیرہ اور کبیرہ کی عام تقسیم کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں۔ لیکن ان کا موقف بہرحال درست نہیں ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صغیرہ اور کبیرہ کے تصور کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ توبہ سے کبیرہ گناہ بھی مٹ جاتے ہیں اور اگر توبہ نہ کی جائے تو معمولی معمولی گناہ بھی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ (ملخص: فضل اللہ الصمد) ۴۔ دوستوں کی صحبت کا انسان پر بہت اثر ہوتا ہے اس لیے دوستوں کا انتخاب دیکھ کر کرنا چاہیے۔ طیسلہ بن میاس خارجیوں کے ساتھ میل جول کی وجہ سے ان سے متاثر ہوئے۔ برے دوست کی مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹی کے ساتھ دی ہے کہ جس کا دھواں پاس بیٹھنے والے کو کم از کم ضرور پہنچتا ہے۔ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین کی نافرمانی اور ان سے بدسلوکی بھی کبیرہ گناہ ہے۔ ۵۔ أحَیّ والداك: ابن عمر رضی اللہ عنہ کا والدین کی زندگی کے متعلق سوال کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک انسان کے جنت میں جانے کا سبب ہے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک انسان کے عام گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور جو شخص حقیقت میں جہنم سے ڈرتا ہے اور جنت میں جانے کا خواہش مند ہے اسے اپنے اخلاق اور اعمال درست کرنے چاہئیں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ جہنم سے ڈرتا ہے لیکن اس کے اعمال درست نہیں ہیں تو گویا وہ شخص حقیقت میں اللہ سے ڈرتا ہی نہیں ہے اور اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہے۔ ۶۔ اولاد والدین کا سرمایہ ہے اور ان کے لیے اولاد کا مال حلال ہے۔ وہ دستور کے مطابق اولاد کا مال ان کی اجازت کے بغیر بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن اگر اولاد دل کی خوشی سے والدین پر خرچ کرتی ہے تو ان کا یہ خرچ کرنا بھی اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں میں شمار کرکے ان کے جنت میں جانے کا سبب بنا دیتا ہے۔