الادب المفرد - حدیث 79

كِتَابُ بَابُ مَنْ عَالَ ثَلَاثَ أَخَوَاتٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُكْمِلٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ بَشِيرٍ الْمُعَاوِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا يَكُونُ لِأَحَدٍ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ، فَيُحْسِنُ إِلَيْهِنَّ، إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 79

کتاب تین بہنوں کی کفالت کی فضیلت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان سے حسن سلوک کرتا ہو تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
تشریح : (۱)بیٹیوں کی طرح بہنوں کی کفالت اور ان سے حسن سلوک بھی دخول جنت کا باعث ہے۔ معاشرتی طور پر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بھائی شادی کے بعد عموماً بہنوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ بالخصوص اگر والدین کا سایہ سر سے اٹھ جائے اور وہ ابھی غیر شادی شدہ ہوں تو ان کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ بھائی اپنی بیوی کی باتوں کی پیروی کرتے ہوئے بہنوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بھائی اپنے بیوی بچوں کی کفالت کے لیے تو دن رات محنت کرتے ہیں لیکن بہنیں اپنی گزر اوقات اور شادی کے لیے خود مزدوری کرتی ہیں۔ اسلام نے اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اس بات کی ترغیب دلائی ہے کہ جس طرح تمہاری بیٹیاں حسن سلوک کی مستحق ہیں اسی طرح بہنیں، بالخصوص جب وہ والد کے سایہ شفقت سے محروم ہو جائیں، بھی تمہارے احسان کی محتاج ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے والد فوت ہوئے تو ان کی بیٹیاں چھوٹی تھیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ایک شوہر دیدہ سے نکاح کیا تاکہ وہ ان کی بہنوں کی پرورش احسن طریقے سے کرسکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تونے کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے بہنوں کی تربیت کی خاطر شوہر دیدہ سے نکاح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تحسین فرمائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والد کی محرومی کے بعد بھائیوں کی ذمہ داری ہے کہ بہنوں کی پرورش اور کفالت کا بندوبست کریں۔ (۲) بہنیں بھائیوں سے فطری طور پر زیادہ محبت کرتی ہیں اس کے برعکس بھائی ان کا زیادہ خیال نہیں رکھتے اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان کے ذریعے سے ترغیب دلائی ہے کہ بہنیں اگر ضرورت مند ہوں تو ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی باعث اجر ہے۔ ایک روایت (ابي داود:۵۱۴۸)میں دو بہنوں کی کفالت کرنے والے کے لیے بھی یہی فضیلت منقول ہے۔
تخریج : حسن:أخرجه أبي داود، الأدب، باب فضل من عال بینهما:۵۱۴۷۔ والترمذي:۱۹۱۲۔ صحیح الترغیب:۱۹۷۳۔ الصحیحة:۲۹۴۔ (۱)بیٹیوں کی طرح بہنوں کی کفالت اور ان سے حسن سلوک بھی دخول جنت کا باعث ہے۔ معاشرتی طور پر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ بھائی شادی کے بعد عموماً بہنوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ بالخصوص اگر والدین کا سایہ سر سے اٹھ جائے اور وہ ابھی غیر شادی شدہ ہوں تو ان کے ساتھ زیادہ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ بھائی اپنی بیوی کی باتوں کی پیروی کرتے ہوئے بہنوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بھائی اپنے بیوی بچوں کی کفالت کے لیے تو دن رات محنت کرتے ہیں لیکن بہنیں اپنی گزر اوقات اور شادی کے لیے خود مزدوری کرتی ہیں۔ اسلام نے اس کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اس بات کی ترغیب دلائی ہے کہ جس طرح تمہاری بیٹیاں حسن سلوک کی مستحق ہیں اسی طرح بہنیں، بالخصوص جب وہ والد کے سایہ شفقت سے محروم ہو جائیں، بھی تمہارے احسان کی محتاج ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے والد فوت ہوئے تو ان کی بیٹیاں چھوٹی تھیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے ایک شوہر دیدہ سے نکاح کیا تاکہ وہ ان کی بہنوں کی پرورش احسن طریقے سے کرسکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تونے کنواری سے نکاح کیوں نہیں کیا؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے بہنوں کی تربیت کی خاطر شوہر دیدہ سے نکاح کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تحسین فرمائی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ والد کی محرومی کے بعد بھائیوں کی ذمہ داری ہے کہ بہنوں کی پرورش اور کفالت کا بندوبست کریں۔ (۲) بہنیں بھائیوں سے فطری طور پر زیادہ محبت کرتی ہیں اس کے برعکس بھائی ان کا زیادہ خیال نہیں رکھتے اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان کے ذریعے سے ترغیب دلائی ہے کہ بہنیں اگر ضرورت مند ہوں تو ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی باعث اجر ہے۔ ایک روایت (ابي داود:۵۱۴۸)میں دو بہنوں کی کفالت کرنے والے کے لیے بھی یہی فضیلت منقول ہے۔