الادب المفرد - حدیث 787

كِتَابُ بَابُ الْغِنَاءِ وَاللَّهْوِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَا: أَخْبَرَنَا قِنَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّهْمِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَفْشُوا السَّلَامَ تَسْلَمُوا، وَالْأَشَرَةُ شَرٌّ)) قَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: وَالْأَشَرُ: الْعَبَثُ.

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 787

کتاب گانے اور کھیل کا بیان حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’سلام کو عام کرو، سلامتی سے رہو گے اور فضول بات شر ہے۔‘‘ ابو معاویہ نے کہا:اشر کے معنی عبث کے ہیں۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ سلام پھیلاؤ، خواہ تمہیں کوئی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو کیونکہ یہ باہمی محبت و الفت کا سبب ہے۔ اس سے نفرت دور ہوتی ہے اور انسان قطع تعلقی سے بھی بچا رہتا ہے۔ ایک حدیث میں سلام عام کرنے کو دخول جنت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فضول گوئی سے شر پھیلتا ہے اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔
تخریج : حسن:أخرجه أحمد:۱۸۵۳۔ وأبي یعلیٰ:۱۶۸۳۔ وابن حبان:۴۹۱۔ انظر الصحیحة:۱۴۹۳۔ مطلب یہ ہے کہ سلام پھیلاؤ، خواہ تمہیں کوئی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو کیونکہ یہ باہمی محبت و الفت کا سبب ہے۔ اس سے نفرت دور ہوتی ہے اور انسان قطع تعلقی سے بھی بچا رہتا ہے۔ ایک حدیث میں سلام عام کرنے کو دخول جنت کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فضول گوئی سے شر پھیلتا ہے اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔