الادب المفرد - حدیث 784

كِتَابُ بَابُ الْغِنَاءِ وَاللَّهْوِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ إِلَى السُّوقِ، فَمَرَّ عَلَى جَارِيَةٍ صَغِيرَةٍ تُغَنِّي، فَقَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ لَوْ تَرَكَ أَحَدًا لَتَرَكَ هَذِهِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 784

کتاب گانے اور کھیل کا بیان حضرت عبداللہ بن دینار سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بازار گیا تو ان کا گزر ایک چھوٹی لڑکی کے پاس سے ہوا جو گا رہی تھی، آپ نے فرمایا:شیطان اگر کسی کو (گمراہ کرنے)چھوڑتا تو اس لڑکی کو چھوڑ دیتا۔
تشریح : (۱)شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اور وہ انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرتا ہے۔ گانا بجانا بھی اس کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے سے وہ اس بچی کو پیچھے لگا رہا تھا۔ (۲) گانا بجانا اور موسیقی حرام ہے یا حلال اس کے متعلق علماء کی مختلف آراء ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ دف بجانا اور قومی نوعیت کے ترانے وغیرہ پڑھنا جبکہ یہ کام نابالغ بچیاں کریں اور عید و شادی بیاہ کے موقع پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جن روایات سے اس کی اجازت ملتی ہے ان سے اسی طرح کے گیت مراد ہیں۔ جہاں تک ان گانوں کا تعلق ہے جو بے حیائی اور حرام کاموں پر ابھارتے ہیں جیسا کہ آج کل کے تمام گانے ہیں تو وہ معتبر علماء کے نزدیک بالاتفاق حرام ہیں۔ (۳) عصر حاضر میں گانا بجانا انڈسٹری کی صورت حال اختیار کر چکا ہے اور باقاعدہ کنجر اور کنجریاں فنکاروں کے مہذب نام کا لبادہ اوڑھ چکے اور معاشرے میں پھیلنے والی ہر بے حیائی انہی کے مرہون منت ہے تو اسے کسی صورت میں بھی شرعی اور اخلاقی جواز مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ (۴) سماع اور رقص کی محفلیں سجانے والے اور موسیقی کو روح کی غذا کہنے والے گمراہ ہیں جو حرام کام کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر یہ اطاعت الٰہی کا ذریعہ ہوتا تو صحابہ کرام اور تابعین عظام، نیز محدثین اس کو ضرور اختیار کرتے۔ لیکن قرآن و حدیث میں اس کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔
تخریج : حسن:أخرجه ابن أبي الدنیا في ذم الملاهي:۴۳۔ والبیهقي في شعب الایمان:۵۱۰۲۔ (۱)شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے اور وہ انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرتا ہے۔ گانا بجانا بھی اس کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے سے وہ اس بچی کو پیچھے لگا رہا تھا۔ (۲) گانا بجانا اور موسیقی حرام ہے یا حلال اس کے متعلق علماء کی مختلف آراء ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ دف بجانا اور قومی نوعیت کے ترانے وغیرہ پڑھنا جبکہ یہ کام نابالغ بچیاں کریں اور عید و شادی بیاہ کے موقع پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جن روایات سے اس کی اجازت ملتی ہے ان سے اسی طرح کے گیت مراد ہیں۔ جہاں تک ان گانوں کا تعلق ہے جو بے حیائی اور حرام کاموں پر ابھارتے ہیں جیسا کہ آج کل کے تمام گانے ہیں تو وہ معتبر علماء کے نزدیک بالاتفاق حرام ہیں۔ (۳) عصر حاضر میں گانا بجانا انڈسٹری کی صورت حال اختیار کر چکا ہے اور باقاعدہ کنجر اور کنجریاں فنکاروں کے مہذب نام کا لبادہ اوڑھ چکے اور معاشرے میں پھیلنے والی ہر بے حیائی انہی کے مرہون منت ہے تو اسے کسی صورت میں بھی شرعی اور اخلاقی جواز مہیا نہیں کیا جاسکتا۔ (۴) سماع اور رقص کی محفلیں سجانے والے اور موسیقی کو روح کی غذا کہنے والے گمراہ ہیں جو حرام کام کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر یہ اطاعت الٰہی کا ذریعہ ہوتا تو صحابہ کرام اور تابعین عظام، نیز محدثین اس کو ضرور اختیار کرتے۔ لیکن قرآن و حدیث میں اس کے جواز کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔