الادب المفرد - حدیث 78

كِتَابُ بَابُ مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ أَوْ وَاحِدَةً حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُمْ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ، يُؤْوِيهِنَّ، وَيَكْفِيهِنَّ، وَيَرْحَمُهُنَّ، فَقَدْ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ الْبَتَّةَ)) ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ بَعْضِ الْقَوْمِ: وَثِنْتَيْنِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((وَثِنْتَيْنِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 78

کتاب ایک یا دو بچیوں کی پرورش کی فضیلت حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کی تین بیٹیاں ہوں جنہیں وہ ٹھکانا دیتا ہو، ان کی کفالت کرتا ہو اور ان پر شفقت کرتا ہو تو اس کے لیے ضرور جنت واجب ہوگئی۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول! اگر کسی کی دو بیٹیاں ہوں تو (ان کے ساتھ حسن سلوک کا بھی یہی ثواب ہے؟)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’دو کے ساتھ حسن سلوک کا بھی یہی ثواب ہے۔‘‘
تشریح : (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو اس دور کے تناظر میں دیکھا جائے، جس میں آپ نے یہ ترغیب دی، تو معلوم ہوتا ہے کہ حقوق نسواں کا اصل محافظ اسلام ہے۔ آپ نے یہ ارشادات اس وقت فرمائے جب لوگ بیٹوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش کی خبر ملتی تو منہ چھپاتے پھرتے، عار کے مارے بیٹیوں سے نفرت کرتے۔ ایسے حالات میں بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب محسن انسانیت کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ (۲) بیٹیوں کی پرورش بہت بڑی آزمائش ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا، انہیں آداب سکھانا، ان کی خوراک اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا اور پھر ان کی شادی کے مراحل ایسی نازک ذمہ داریاں ہیں کہ انسان اللہ کی توفیق کے بغیر ان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ (۳) بیٹوں کو نظر انداز کرکے بیٹیوں کے ذکر کرنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ بیٹوں پر خرچ کرنے سے انسان اجر کا مستحق نہیں ہوتا۔ چونکہ عموماً لوگ بیٹوں کی تربیت شوق سے کرتے ہیں اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اس لیے اس کی خاص فضیلت کا ذکر فرمایا، نیز بیٹے جوان ہونے پر عموماً خود کفیل ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹیاں شادی تک والدین کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ (۴) حسن سلوک کا مطلب ہے کہ ان کے حقوق سے بڑھ کر ان کے ساتھ بھلائی کی جائے۔ ان کی ضروریات سے زائد انہیں دیا جائے۔ اپنی ذات پر انہیں ترجیح دی جائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک سائلہ عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں میرے پاس صرف ایک کھجور تھی۔ وہ میں نے اسے دے دی۔ اس نے یہ کھجور تقسیم کرکے دونوں بیٹیوں کو دے دی اور خود کچھ بھی نہ کھایا۔ پھر اٹھ کر چلی گئی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے (سارا واقعہ)آپ کو بتایا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ((مَنِ ابْتُلِیَ مِنْ هَذِہِ الْبَنَاتِ بِشَیْئٍ کُنَّ لَهٗ سِترًا مِنَ النَّار))(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:۱۴۱۸) ’’جو ان بیٹیوں کے ساتھ آزمایا گیا (اور اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا)تو وہ اس کے لیے آگ سے رکاوٹ بن جائیں گی۔‘‘ (۵) کپڑے عورتوں کی کمزوری ہے، اس لیے پہلی حدیث میں لباس کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا:اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی خوراک اور رہائش کے ساتھ ساتھ ان کی ضروری زینت کا خیال رکھنا بھی باعث اجر ہے۔ تاہم دور حاضر میں بچیوں کے اخلاق و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ ان سے ملنے جلنے والی لڑکیوں کا چال چلن کیسا ہے، ان کی زیب و زینت میں کوئی چیز خلاف شرع نہ ہو، پھر وہ زیب و زینت کرکے غیر محرموں کے سامنے نہ آئیں، باہر نہ نکلیں اور عفت و حیا کا دامن ان سے چھوٹنے نہ پائے۔ (۶) عمومی طور پر بیٹیوں کی ضروریات کا خیال شادی تک رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ شادی کے بعد لڑکی کے اخراجات اور ضروریات کا ذمہ دار اس کا خاوند ہوتا ہے لیکن والدین کو چاہیے کہ وہ جس طرح بیٹوں کی شادیوں کے بعد ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں بیٹیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھیں۔ امہات المؤمنین نے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا:جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے لے لینا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ نہ کرنا۔ اسی طرح سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی شادی کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غلام اور خادم مانگنا ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیٹی اگر ضرورت مند ہو تو والدین کو چاہیے کہ اس کا خیال رکھیں۔ (۷) بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انہیں وراثت سے محروم نہ کیا جائے۔ عصر حاضر میں لوگ بچیوں کے ساتھ ویسے تو حسن سلوک کرتے ہیں لیکن وراثت سے ان کو محروم کر دیتے ہیں۔ یہ سراسر ظلم ہے۔ روز قیامت ایسا کرنا حسرت و ندامت کا باعث ہوگا۔ أعاذنا اللّٰہ منہ۔ (۸) باب میں ایک بیٹی کی پرورش پر بھی اسی فضیلت کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں کم از کم دو کا ذکر ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک بیٹی کے لیے یہ فضیلت بایں طور ثابت کی ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ راوی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر تم ایک کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کرتے تو آپ ایک کے بارے میں بھی یہی فضیلت بتاتے تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کی قسم! میرا بھی یہی خیال ہے۔ (الأدب المفرد، حدیث:۱۴۶) حدیث زیر مطالعہ کے فائدہ نمبر ۴ میں بخاری کی ذکر کردہ حدیث میں الفاظ ہیں:’’من هذه البنات بشیئٍ‘‘ ان بیٹیوں میں سے کسی کے ساتھ (آزمایا جائے)اس کے مفہوم میں ایک بیٹی بھی شامل سمجھی جائے۔
تخریج : حسن:أخرجه أحمد:۱۴۲۴۷۔ الصحیحة:۱۰۲۷۔ (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کو اس دور کے تناظر میں دیکھا جائے، جس میں آپ نے یہ ترغیب دی، تو معلوم ہوتا ہے کہ حقوق نسواں کا اصل محافظ اسلام ہے۔ آپ نے یہ ارشادات اس وقت فرمائے جب لوگ بیٹوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش کی خبر ملتی تو منہ چھپاتے پھرتے، عار کے مارے بیٹیوں سے نفرت کرتے۔ ایسے حالات میں بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب محسن انسانیت کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ (۲) بیٹیوں کی پرورش بہت بڑی آزمائش ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا، انہیں آداب سکھانا، ان کی خوراک اور دیگر ضروریات کا خیال رکھنا اور پھر ان کی شادی کے مراحل ایسی نازک ذمہ داریاں ہیں کہ انسان اللہ کی توفیق کے بغیر ان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ (۳) بیٹوں کو نظر انداز کرکے بیٹیوں کے ذکر کرنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ بیٹوں پر خرچ کرنے سے انسان اجر کا مستحق نہیں ہوتا۔ چونکہ عموماً لوگ بیٹوں کی تربیت شوق سے کرتے ہیں اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں اس لیے اس کی خاص فضیلت کا ذکر فرمایا، نیز بیٹے جوان ہونے پر عموماً خود کفیل ہو جاتے ہیں جبکہ بیٹیاں شادی تک والدین کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ (۴) حسن سلوک کا مطلب ہے کہ ان کے حقوق سے بڑھ کر ان کے ساتھ بھلائی کی جائے۔ ان کی ضروریات سے زائد انہیں دیا جائے۔ اپنی ذات پر انہیں ترجیح دی جائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک سائلہ عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں میرے پاس صرف ایک کھجور تھی۔ وہ میں نے اسے دے دی۔ اس نے یہ کھجور تقسیم کرکے دونوں بیٹیوں کو دے دی اور خود کچھ بھی نہ کھایا۔ پھر اٹھ کر چلی گئی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے (سارا واقعہ)آپ کو بتایا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ((مَنِ ابْتُلِیَ مِنْ هَذِہِ الْبَنَاتِ بِشَیْئٍ کُنَّ لَهٗ سِترًا مِنَ النَّار))(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:۱۴۱۸) ’’جو ان بیٹیوں کے ساتھ آزمایا گیا (اور اس نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا)تو وہ اس کے لیے آگ سے رکاوٹ بن جائیں گی۔‘‘ (۵) کپڑے عورتوں کی کمزوری ہے، اس لیے پہلی حدیث میں لباس کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا:اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی خوراک اور رہائش کے ساتھ ساتھ ان کی ضروری زینت کا خیال رکھنا بھی باعث اجر ہے۔ تاہم دور حاضر میں بچیوں کے اخلاق و تربیت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ ان سے ملنے جلنے والی لڑکیوں کا چال چلن کیسا ہے، ان کی زیب و زینت میں کوئی چیز خلاف شرع نہ ہو، پھر وہ زیب و زینت کرکے غیر محرموں کے سامنے نہ آئیں، باہر نہ نکلیں اور عفت و حیا کا دامن ان سے چھوٹنے نہ پائے۔ (۶) عمومی طور پر بیٹیوں کی ضروریات کا خیال شادی تک رکھا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ سمجھا جاتا ہے کہ اب ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ شادی کے بعد لڑکی کے اخراجات اور ضروریات کا ذمہ دار اس کا خاوند ہوتا ہے لیکن والدین کو چاہیے کہ وہ جس طرح بیٹوں کی شادیوں کے بعد ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں بیٹیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھیں۔ امہات المؤمنین نے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا:جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے لے لینا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ نہ کرنا۔ اسی طرح سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی شادی کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے غلام اور خادم مانگنا ثابت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیٹی اگر ضرورت مند ہو تو والدین کو چاہیے کہ اس کا خیال رکھیں۔ (۷) بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انہیں وراثت سے محروم نہ کیا جائے۔ عصر حاضر میں لوگ بچیوں کے ساتھ ویسے تو حسن سلوک کرتے ہیں لیکن وراثت سے ان کو محروم کر دیتے ہیں۔ یہ سراسر ظلم ہے۔ روز قیامت ایسا کرنا حسرت و ندامت کا باعث ہوگا۔ أعاذنا اللّٰہ منہ۔ (۸) باب میں ایک بیٹی کی پرورش پر بھی اسی فضیلت کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں کم از کم دو کا ذکر ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک بیٹی کے لیے یہ فضیلت بایں طور ثابت کی ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ راوی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر تم ایک کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کرتے تو آپ ایک کے بارے میں بھی یہی فضیلت بتاتے تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ کی قسم! میرا بھی یہی خیال ہے۔ (الأدب المفرد، حدیث:۱۴۶) حدیث زیر مطالعہ کے فائدہ نمبر ۴ میں بخاری کی ذکر کردہ حدیث میں الفاظ ہیں:’’من هذه البنات بشیئٍ‘‘ ان بیٹیوں میں سے کسی کے ساتھ (آزمایا جائے)اس کے مفہوم میں ایک بیٹی بھی شامل سمجھی جائے۔