الادب المفرد - حدیث 774

كِتَابُ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ: وَيْلَكَ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بِالْجِعْرَانَةِ، وَالتِّبْرُ فِي حِجْرِ بِلَالٍ، وَهُوَ يَقْسِمُ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: اعْدِلْ، فَإِنَّكَ لَا تَعْدِلُ، فَقَالَ: ((وَيْلَكَ، فَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلُ؟)) قَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَضْرِبُ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذَا مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ - أَوْ: فِي أَصْحَابٍ لَهُ - يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ "، ثُمَّ قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: سَمِعْتُهُ مِنْ جَابِرٍ. قُلْتُ لِسُفْيَانَ: رَوَاهُ قُرَّةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: لَا أَحْفَظُهُ عَنْ عَمْرٍو، وَإِنَّمَا حَدَّثَنَاهُ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 774

کتاب کسی کو ’’ویلك‘‘ کہنے کا حکم حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے روز جعرانہ مقام پر تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی گود میں سونے کی ڈلیاں تھیں جنہیں آپ تقسیم فرما رہے تھے۔ چنانچہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:عدل کیجیے، آپ عدل نہیں کر رہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تو برباد ہو اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بلاشبہ یہ اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ ہوگا جو قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘پھر سفیان نے کہا کہ ابو الزبیر نے کہا میں نے جابر سے سنا۔ علی کہتے ہیں:میں نے سفیان سے کہا کہ قرہ جب بیان کرتے ہیں عمرو عن جابر بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:مجھے عمرو کی حدیث کا علم نہیں۔ ہمیں تو ابو زبیر نے جابر کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
تشریح : (۱)مذکورہ بالا تینوں احادیث میں لفظ ویحک اور ویلک استعمال ہوا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ محاورہ ہے اور اس سے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ یہ اظہار تعجب، افسوس اور زجر و توبیخ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ (۲) پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور اگر سواری کے قابل ہو تو اس پر سواری جائز ہے، تاہم اگر متبادل کوئی سواری موجود ہو تو اس پر سوار نہ ہونا افضل ہے۔ صحیح مسلم (۳۲۱۴)میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ارکبها بالمعروف اذا الجئت الیها حتی تجدا ظهرًا)) ’’اس پر معروف طریقہ سے سوار، اگر تو اس کی طرف مجبور کیا جائے حتیٰ کہ تو کوئی اور سواری پا لے۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ مجبوری کی صورت میں قربانی کے جانور پر سواری جائز ہے ویسے نہیں، اور زیر مطالعہ حدیث میں مجبور شخص کا ہی ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس صورت میں بھی سوار ہونا درست نہ سمجھتا ہو گا۔ دوسرے اثر سے معلوم ہوا کہ کھانا کھانے کے بعد وضو ضروری نہیں اور نہ اس سے سابقہ وضو ٹوٹتا ہے،ا لبتہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے صحیح احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا میں بکری کے گوشت سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا:اگر تو چاہے اور اونٹ کے گوشت سے وضو کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:ہاں اونٹ کے گوشت سے وضو کر۔ دونوں سوالوں کے جواب میں فرق ہے معلوم ہوا کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا ضروری ہے۔ (مسلم:۸۰۲) تیسری حدیث میں خارجیوں کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتماد نہیں ہوتا۔ آپ کی لائی ہوئی شریعت اور تقسیم کو غیر منصفانہ سمجھتے ہیں آج جو لوگ قرآن و حدیث کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کیے ہوئے تقلید کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں انہیں جائزہ لینا چاہیے کہ احادیث رسول اور قول امام میں تضاد آجائے تو ان کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ زبان سے احادیث و سنت کی باتیں اور عمل کے لیے قول امام! فاعتبرو یا اولی الابصار۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاری، کتاب فرض الخمس:۳۱۳۸۔ مختصراً، ومسلم:۱۰۶۳۔ والنسائي في الکبریٰ:۸۰۳۳۔ وابن ماجة:۱۷۲۔ (۱)مذکورہ بالا تینوں احادیث میں لفظ ویحک اور ویلک استعمال ہوا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ محاورہ ہے اور اس سے حقیقی معنی مراد نہیں ہوتے بلکہ یہ اظہار تعجب، افسوس اور زجر و توبیخ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ (۲) پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور اگر سواری کے قابل ہو تو اس پر سواری جائز ہے، تاہم اگر متبادل کوئی سواری موجود ہو تو اس پر سوار نہ ہونا افضل ہے۔ صحیح مسلم (۳۲۱۴)میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ارکبها بالمعروف اذا الجئت الیها حتی تجدا ظهرًا)) ’’اس پر معروف طریقہ سے سوار، اگر تو اس کی طرف مجبور کیا جائے حتیٰ کہ تو کوئی اور سواری پا لے۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ مجبوری کی صورت میں قربانی کے جانور پر سواری جائز ہے ویسے نہیں، اور زیر مطالعہ حدیث میں مجبور شخص کا ہی ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس صورت میں بھی سوار ہونا درست نہ سمجھتا ہو گا۔ دوسرے اثر سے معلوم ہوا کہ کھانا کھانے کے بعد وضو ضروری نہیں اور نہ اس سے سابقہ وضو ٹوٹتا ہے،ا لبتہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے صحیح احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا میں بکری کے گوشت سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا:اگر تو چاہے اور اونٹ کے گوشت سے وضو کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:ہاں اونٹ کے گوشت سے وضو کر۔ دونوں سوالوں کے جواب میں فرق ہے معلوم ہوا کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کرنا ضروری ہے۔ (مسلم:۸۰۲) تیسری حدیث میں خارجیوں کی نشاندہی کی گئی ہے کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتماد نہیں ہوتا۔ آپ کی لائی ہوئی شریعت اور تقسیم کو غیر منصفانہ سمجھتے ہیں آج جو لوگ قرآن و حدیث کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کیے ہوئے تقلید کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں انہیں جائزہ لینا چاہیے کہ احادیث رسول اور قول امام میں تضاد آجائے تو ان کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ زبان سے احادیث و سنت کی باتیں اور عمل کے لیے قول امام! فاعتبرو یا اولی الابصار۔