الادب المفرد - حدیث 761

كِتَابُ بَابُ مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا زُكِّيَ حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ أَرْطَأَةَ قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا زُكِّيَ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا يَقُولُونَ، وَاغْفِرْ لِي مَا لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 761

کتاب جب کسی کی پارسائی بیان کی جائے تو وہ کیا کہے عدی بن ارطاۃ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ایک شخص ایسے تھے کہ جب ان کے سامنے ان کی پارسائی بیان کی جاتی تو وہ کہتے:اے اللہ جو یہ لوگ کہہ رہے اس کا مجھ سے مؤاخذہ نہ کرنا اور میرے بارے میں جو یہ لوگ نہیں جانتے ان (گناہوں)کی مغفرت فرما۔
تشریح : (۱)جس طرح اپنا تزکیہ خود کرنا منع ہے اسی طرح کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنا بھی مذموم امر ہے کیونکہ اس سے خطرہ ہے کہ وہ شخص اپنے آپ کو پارسا سمجھنا شروع کر دے اور تباہ ہو جائے، البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یقین ہو کہ یہ سامنے تعریف کرنے سے غرور میں مبتلا نہیں ہوگا تو اس کی منہ پر تعریف کرنا جائز ہے۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے مذکورہ دعا پڑھنی چاہیے جو اس بات کا اظہار ہے کہ یا اللہ یہ تیری دی ہوئی عزت اور پردے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اپنی شہرت کراؤں اس لیے میرا مؤاخذہ نہ فرمانا اور میرے جن گناہوں کا انہیں علم نہیں وہ معاف فرما دینا اور مجھے رسوا نہ کرنا۔ (۲) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کے اچھے کام پر اس کی حوصلہ افزائی بھی نہ کی جائے۔ خوشامد اور حوصلہ افزائی میں فرق ظاہر ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد في الزهد:۱۱۴۲۔ والبخاری في التاریخ الکبیر:۲؍ ۵۸۔ وابن أبي شیبة:۳۵۷۰۳۔ (۱)جس طرح اپنا تزکیہ خود کرنا منع ہے اسی طرح کسی کے منہ پر اس کی تعریف کرنا بھی مذموم امر ہے کیونکہ اس سے خطرہ ہے کہ وہ شخص اپنے آپ کو پارسا سمجھنا شروع کر دے اور تباہ ہو جائے، البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یقین ہو کہ یہ سامنے تعریف کرنے سے غرور میں مبتلا نہیں ہوگا تو اس کی منہ پر تعریف کرنا جائز ہے۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے مذکورہ دعا پڑھنی چاہیے جو اس بات کا اظہار ہے کہ یا اللہ یہ تیری دی ہوئی عزت اور پردے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ اپنی شہرت کراؤں اس لیے میرا مؤاخذہ نہ فرمانا اور میرے جن گناہوں کا انہیں علم نہیں وہ معاف فرما دینا اور مجھے رسوا نہ کرنا۔ (۲) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی کے اچھے کام پر اس کی حوصلہ افزائی بھی نہ کی جائے۔ خوشامد اور حوصلہ افزائی میں فرق ظاہر ہے۔