الادب المفرد - حدیث 754

كِتَابُ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ: فُلَانٌ جَعْدٌ، أَسْوَدُ، أَوْ طَوِيلٌ، قَصِيرٌ، يُرِيدُ الصِّفَةَ وَلَا يُرِيدُ الْغِيبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَخِي أَبِي رُهْمٍ كُلْثُومُ بْنُ الْحُصَيْنِ الْغِفَارِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا رُهْمٍ - وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِينَ بَايَعُوهُ تَحْتَ الشَّجَرَةِ - يَقُولُ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، فنُمْتُ لَيْلَةً بِالْأَخْضَرِ، فَصِرْتُ قَرِيبًا مِنْهُ، فَأُلْقِيَ عَلَيْنَا النُّعَاسُ، فَطَفِقْتُ أَسْتَيْقِظُ وَقَدْ دَنَتْ رَاحِلَتِي مِنْ رَاحِلَتِهِ، فَيُفْزِعُنِي دُنُوُّهَا خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، فَطَفِقْتُ أُؤَخِّرُ رَاحِلَتِي حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي بَعْضَ اللَّيْلِ، فَزَاحَمَتْ رَاحِلَتِي رَاحِلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرِجْلُهُ فِي الْغَرْزِ، فَأَصَبْتُ رِجْلَهُ، فَلَمْ أَسْتَيْقِظْ إِلَّا بِقَوْلِهِ: ((حَسِّ)) ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((سِرْ)) . فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُنِي عَنْ مَنْ تَخَلَّفَ مِنْ بَنِي غِفَارٍ فَأُخْبِرُهُ، فَقَالَ - وَهُوَ يَسْأَلُنِي: ((مَا فَعَلَ النَّفْرُ الْحُمُرُ الطِّوَالُ الثِّطَاطُ؟)) قَالَ: فَحَدَّثْتُهُ بِتَخَلُّفِهِمْ، قَالَ: ((فَمَا فَعَلَ السُّودُ الْجِعَادُ الْقِصَارُ الَّذِينَ لَهُمْ نَعَمٌ بِشَبَكَةِ شَرَخٍ؟)) فَتَذَكَّرْتُهُمْ فِي بَنِي غِفَارٍ، فَلَمْ أَذْكُرْهُمْ حَتَّى ذَكَرْتُ أَنَّهُمْ رَهْطٌ مِنْ أَسْلَمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُولَئِكَ مِنْ أَسْلَمَ، قَالَ: ((فَمَا يَمْنَعُ أَحَدَ أُولَئِكَ، حِينَ يَتَخَلَّفُ، أَنْ يَحْمِلَ عَلَى بَعِيرٍ مِنْ إِبِلِهِ امْرَءًا نَشِيطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَإِنَّ أَعَزَّ أَهْلِي عَلَيَّ أَنْ يَتَخَلَّفَ عَنِّي الْمُهَاجِرُونَ مِنْ قُرَيْشٍ وَالْأَنْصَارُ، وَغِفَارٌ وَأَسْلَمُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 754

کتاب اگر کوئی کہے کہ فلاں گھنگریالے بالوں والا کالا یا لمبا یا پست قد ہے اور اس کا مقصد تعارف کروانا ہو، غیبت نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ابن شہاب زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو رہم کلثوم بن حصن غفاری رضی اللہ عنہ کے بھتیجے نے بتایا کہ اس نے ابو رہم سے سنا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ میں سے تھے جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی۔ وہ فرماتے تھے:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں شریک تھا۔ دوران سفر ایک رات میں اخضر مقام پر ٹھہرا۔ پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگیا تو ہم پر اونگھ تاری ہوگئی۔ میں اپنے آپ کو بیدار کرتا رہا اور میری سواری آپ کی سواری کے قریب چلتی رہی۔ مجھے یہ بات پریشان کرتی رہی کہ کہیں آپ کا پاؤں مبارک جو رکاب میں تھا میری سواری سے ٹکرا نہ جائے۔ میں مسلسل سواری کو پیچھے کرتا رہا یہاں تک کہ رات کے ایک حصے میں مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا تو میری سواری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے ٹکرا گئی۔ آپ کا قدم مبارک رکاب میں تھا آپ کے قدم کو سواری کا کچھ حصہ لگ گیا۔ میری آنکھ اس وقت کھلی جب آپ نے ’’حس‘‘ فرمایا۔ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش طلب فرمائیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’چلتے رہو۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بنو غفار کے ان لوگوں کے بارے میں پوچھنے لگے جو اس (غزوہ تبوک)سے پیچھے رہ گئے تھے۔ آپ نے مجھ سے دریافت کرتے ہوئے فرمایا:’’اس سرخ، لمبے اور کھودے لشکر کا کیا بنا، وہ کیوں نہیں آئے۔‘‘ وہ کہتے ہیں:میں نے آپ کو ان کے پیچھے رہ جانے کے بارے میں بتایا۔ آپ نے فرمایا:’’وہ کالے، گھنگریالے بالوں والے اور چھوٹے قد والے جن کے جانور مقام شبکہ شدخ میں ہیں وہ کیوں نہیں آئے۔ میں نے بنو غفار میں سے یہ لوگ یاد کرنے چاہے تو اس صفت کے لوگ میں یاد نہ کر پایا۔ پھر میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ قبیلہ بنی اسلم میں سے ہیں۔ میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! یہ لوگ قبیلہ اسلم سے ہیں۔ آپ نے فرمایا:’’ان لوگوں کو اس چیز سے کس بات نے منع کیا ہے کہ وہ اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ پر کسی چاک و چوبند آدمی کو اللہ کی راہ میں سوار کرا دیں کیوں مجھے یہ بات بہت گراں گزرتی ہے کہ میرے تعلق داروں میں سے قریش کے مہاجرین، انصار اور بنو غفار اور اسلم جہاد سے پیچھے رہیں۔
تشریح : اس روایت کی سند ضعیف ہے، تاہم اگر کوئی لقب کسی کی پہچان بن چکا ہو تو اس سے اس کو پکارنا جائز ہے، جیسے چھوٹو، کالا وغیرہ۔
تخریج : ضعیف:أخرجه أحمد:۱۹۰۷۳۔ ومعمر في جامعه:۱۱؍ ۴۹۔ وابن أبي عاصم في الآحاد:۹۹۱۔ وابن حبان:۷۲۵۷۔ والطبراني في الکبیر:۱۹؍ ۱۸۳۔ والحاکم:۳؍ ۶۸۵۔ اس روایت کی سند ضعیف ہے، تاہم اگر کوئی لقب کسی کی پہچان بن چکا ہو تو اس سے اس کو پکارنا جائز ہے، جیسے چھوٹو، کالا وغیرہ۔