الادب المفرد - حدیث 747

كِتَابُ بَابُ مَنْ قَدَّمَ إِلَى ضَيْفِهِ طَعَامًا فَقَامَ يُصَلِّي حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ: حَدَّثَنِي الْجُرَيْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَلَاءِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ قَعْنَبٍ قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ فَلَمْ أُوَافِقْهُ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِهِ: أَيْنَ أَبُو ذَرٍّ؟ قَالَتْ: يَمْتَهِنُ، سَيَأْتِيكَ الْآنَ، فَجَلَسْتُ لَهُ، فَجَاءَ وَمَعَهُ بَعِيرَانِ، قَدْ قَطَرَ أَحَدَهُمَا بِعَجُزِ الْآخَرِ، فِي عُنُقِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا قِرْبَةٌ، فَوَضَعَهُمَا ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا مِنْ رَجُلٍ كُنْتُ أَلْقَاهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ لُقْيًا مِنْكَ، وَلَا أَبْغَضَ إِلَيَّ لُقْيًا مِنْكَ، قَالَ: لِلَّهِ أَبُوكَ، وَمَا جَمَعَ هَذَا؟ قَالَ: إِنِّي كُنْتُ وَأَدْتُ مَوْءُودَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَرْهَبُ إِنْ لَقِيتُكَ أَنْ تَقُولَ: لَا تَوْبَةَ لَكَ، لَا مَخْرَجَ لَكَ، وَكُنْتُ أَرْجُو أَنْ تَقُولَ: لَكَ تَوْبَةٌ وَمَخْرَجٌ، قَالَ: أَفِي الْجَاهِلِيَّةِ أَصَبْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ. وَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: آتِينَا بِطَعَامٍ، فَأَبَتَ، ثُمَّ أَمَرَهَا فَأَبَتَ، حَتَّى ارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا، قَالَ: إِيهِ، فَإِنَّكُنَّ لَا تَعْدُونَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: وَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ فِيهِنَّ؟ قَالَ: ((إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّكَ إِنْ تُرِدْ أَنْ تُقِيمَهَا تَكْسِرُهَا، وَإِنْ تُدَارِهَا فَإِنَّ فِيهَا أَوَدًا وَبُلْغَةً)) ، فَوَلَّتْ فَجَاءَتْ بِثَرِيدَةٍ كَأَنَّهَا قَطَاةٌ، فَقَالَ: كُلْ وَلَا أَهُولَنَّكَ فَإِنِّي صَائِمٌ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَجَعَلَ يُهَذِّبُ الرُّكُوعَ، ثُمَّ انْفَتَلَ فَأَكَلَ، فَقُلْتُ: إِنَّا لِلَّهِ، مَا كُنْتُ أَخَافُ أَنْ تَكْذِبَنِي، قَالَ: لِلَّهِ أَبُوكَ، مَا كَذَبْتُ مُنْذُ لَقِيتَنِي، قُلْتُ: أَلَمْ تُخْبِرْنِي أَنَّكَ صَائِمٌ؟ قَالَ: بَلَى، إِنِّي صُمْتُ مِنْ هَذَا الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَكُتِبَ لِي أَجْرُهُ، وَحَلَّ لِيَ الطَّعَامُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 747

کتاب جس نے مہمان کو کھانا پیش کیا اور خود نماز پڑھنے لگا نعیم بن قعنب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا لیکن وہ گھر پر نہ ملے۔ میں نے ان کی بیوی سے پوچھا:ابو ذر کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا:وہ گھر کے کام کاج میں مشغول ہیں، ابھی آپ کے پاس آتے ہیں۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھ گیا، چنانچہ وہ آئے تو ان کے پاس دو اونٹ تھے۔ ان میں سے ایک کو دوسرے کے پیچھے باندھا ہوا تھا اور ان میں سے ہر ایک کی گردن میں مشکیزہ تھا۔ انہوں نے وہ مشکیزے اتارے، پھر تشریف لائے تو میں نے کہا:اے ابوذر! کوئی آدمی مجھے آپ سے زیادہ محبوب نہیں جس سے میں ملاقات کروں اور کوئی آدمی مجھے آپ سے زیادہ مبغوض نہیں جس سے میں ملاقات کروں۔ انہوں نے فرمایا:اللہ تیرا بھلا کرے یہ دونوں باتیں ایک ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہیں؟ وہ کہتے ہیں (میں نے کہا):میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بچی کو زندہ درگور کیا تھا۔ میں ڈر رہا تھا کہ آپ سے ملوں گا تو آپ فرما دیں گے کہ تیری توبہ قبول نہیں۔ اور گناہ سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اور مجھے یہ بھی امید تھی کہ آپ کہیں گے کہ تمہاری توبہ قبول ہے اور گناہ سے نکلنے کا راستہ بھی ہے۔ انہوں نے فرمایا:کیا تم نے زمانہ جاہلیت میں یہ گناہ کیا تھا؟ میں نے کہا:ہاں! انہوں نے کہا:اللہ تعالیٰ نے پہلے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔ پھر اپنی بیوی سے فرمایا:ہمارے لیے کھانا لاؤ تو اس نے انکار کر دیا۔ پھر حکم دیا تو اس نے پھر انکار کر دیا یہاں تک کہ تکرار میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:بس تم اس سے آگے نہیں بڑھ سکتی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ میں نے عرض کیا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا:آپ نے فرمایا:’’بلاشبہ عورت تیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے کا ارادہ کرو گے تو توڑ بیٹھو گے۔ اور اگر تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ اس سے روا داری کرے گا تو اس طرح گزارہ ہوسکتا ہے۔‘‘ پھر وہ خاتون چلی گئی اور (جلدی سے)ثرید لے آئی گویا وہ (تیزی میں)کبوتری ہو۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کھاؤ اور میرا شامل نہ ہونا تجھے پریشان نہ کرے کیونکہ میں روزے سے ہوں۔ پھر اٹھ کر نماز پڑھنے لگے اور جلدی جلدی رکوع کیے، پھر نماز ختم کرکے میرے ساتھ کھانے میں شامل ہوگئے۔ میں نے کہا:انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مجھے آپ سے توقع نہیں تھی کہ آپ مجھ سے جھوٹ بولیں گے۔ انہوں نے فرمایا:اللہ تیرا بھلا کرے میری جب سے تم سے ملاقات ہوئی ہے میں نے تم سے جھوٹ نہیں بولا۔ میں نے کہا:آپ نے مجھے بتایا نہیں تھا کہ آپ روزے سے ہیں؟ انہوں نے فرمایا:ہاں! میں نے اس مہینے میں تین دن کے روزے رکھے ہیں اور میرے لیے اس کا اجر لکھ دیا گیا اور میرے لیے کھانا حلال ہوگیا۔
تشریح : (۱)افضل اور بہتر یہ ہے کہ مہمان کے ساتھ مل کر کھایا جائے لیکن اگر کسی وجہ سے انسان خود شامل نہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (۲) ازدواجی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اس لیے مرد کو چاہیے کہ وہ حوصلے اور صبر سے کام لے۔ خواتین کے لیے اس میں یہ درس ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اگرچہ وقتی طور پر تلخ کلامی کی لیکن بعد ازاں مہمان کے لیے کھانا تیار کیا۔ اس لیے ناراضگی کو جلد ختم کر دینا چاہیے کیونکہ جھگڑا جب طوالت اختیار کر جائے تو کینے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ کلام میں توریہ کرنا جائز ہے، توریہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ بولنا جن سے دو معنی مراد لیے جاسکتے ہوں۔ ظاہری معنی کو ترک کرکے مجازی یا دور کے معنی مراد لینا توریہ کہلاتا ہے۔ (۴) اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے بشرطیکہ اسلام کے بعد کی زندگی بدل جائے اور احکام الٰہی پر عمل ہو۔
تخریج : حسن:أخرجه أحمد:۲۱۳۳۹۔ وعبدالرزاق:۷۸۷۸۔ والطبری في تهذیب الآثار:۱؍ ۳۴۰۔ انظر تخریج الترغیب:۳؍ ۷۳۔ (۱)افضل اور بہتر یہ ہے کہ مہمان کے ساتھ مل کر کھایا جائے لیکن اگر کسی وجہ سے انسان خود شامل نہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ (۲) ازدواجی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے اس لیے مرد کو چاہیے کہ وہ حوصلے اور صبر سے کام لے۔ خواتین کے لیے اس میں یہ درس ہے کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اگرچہ وقتی طور پر تلخ کلامی کی لیکن بعد ازاں مہمان کے لیے کھانا تیار کیا۔ اس لیے ناراضگی کو جلد ختم کر دینا چاہیے کیونکہ جھگڑا جب طوالت اختیار کر جائے تو کینے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ کلام میں توریہ کرنا جائز ہے، توریہ یہ ہے کہ ایسے الفاظ بولنا جن سے دو معنی مراد لیے جاسکتے ہوں۔ ظاہری معنی کو ترک کرکے مجازی یا دور کے معنی مراد لینا توریہ کہلاتا ہے۔ (۴) اسلام سابقہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے بشرطیکہ اسلام کے بعد کی زندگی بدل جائے اور احکام الٰہی پر عمل ہو۔