الادب المفرد - حدیث 740

كِتَابُ بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَخِدْمَتِهِ إِيَّاهُ بِنَفْسِهِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ، فَقُلْنَ: مَا مَعَنَا إِلَّا الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ يَضُمُّ - أَوْ يُضِيفُ - هَذَا؟)) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: أَنَا. فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَقَالَ: أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا عِنْدَنَا إِلَّا قُوتٌ لِلصِّبْيَانِ، فَقَالَ: هَيِّئِي طَعَامَكِ، وَأَصْلِحِي سِرَاجَكِ، وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً، فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا، وَأَصْلَحَتْ سِرَاجَهَا، وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا، ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا فَأَطْفَأَتْهُ، وَجَعَلَا يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلَانِ، وَبَاتَا طَاوِيَيْنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ ضَحِكَ اللَّهُ - أَوْ: عَجِبَ - مِنْ فَعَالِكُمَا "، وَأَنْزَلَ اللَّهُ: ﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ [الحشر: 9]

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 740

کتاب مہمان کی عزت اور خدمت خود کرنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بطور مہمان آیا تو آپ نے اپنی بیویوں کو پیغام بھجوایا کہ کچھ کھانے کو ہو تو بھیج دیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس شخص کو کون ساتھ لے جائے گا یا اس کی مہمانی کون کرے گا؟‘‘ ایک انصاری آدمی نے کہا:میں اسے ساتھ لے جاتا ہوں۔ وہ اسے لے کر اپنی اہلیہ کے پاس گئے اور کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی عزت افزائی کرو۔ اس نے کہا:بچوں کے کھانے کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس نے کہا:کھانا تیار کرو، کھاتے وقت چراغ درست کرنا (اور بجھا دینا)اور بچے اگر رات کا کھانا مانگیں تو انہیں سلا دینا۔ چنانچہ اس نے کھانا تیار کیا اور چراغ اچھی طرح ٹھیک کر دیا اور بچوں کو سلادیا۔ پھر اٹھی جیسے وہ چراغ کو ٹھیک کرنے لگی ہے تو اسے بجھا دیا۔ اور دونوں اسے یہ باور کروا رہے تھے کہ وہ کھا رہے ہیں حالانکہ دونوں نے بھوکے رات گزاری۔ جب صبح ہوئی تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ تم دونوں کے اس اچھے کام پر ہنسا ہے یا خوش ہوا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی:﴿ویُؤثرون علی أنفسهم....﴾ ’’وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود فاقے سے ہوں اور جو اپنے نفس کی بخیلی سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
تشریح : (۱)عورت پردے کا اہتمام کرکے میزبانی کے فرائض سر انجام دے سکتی ہے خواہ کھانا کھانے والے غیر محرم ہوں بشرطیکہ وہ ایمان دار ہوں۔ (۲) مہمان نوازی بہت عظیم عمل ہے، خصوصاً مشکل اوقات میں دوسروں کو اپنی ذات پر فوقیت دینا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ (۳) اس سے پتا چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس سادگی اور مشکل سے زندگی بسر کرتے کہ آپ کے تمام گھروں میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ (۴) مہمان کو لے جانے والے سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب مناقب الأنصار:۳۷۹۸۔ ومسلم:۲۰۵۴۔ والترمذي:۳۳۰۴۔ انظر الصحیحة:۳۲۷۲۔ (۱)عورت پردے کا اہتمام کرکے میزبانی کے فرائض سر انجام دے سکتی ہے خواہ کھانا کھانے والے غیر محرم ہوں بشرطیکہ وہ ایمان دار ہوں۔ (۲) مہمان نوازی بہت عظیم عمل ہے، خصوصاً مشکل اوقات میں دوسروں کو اپنی ذات پر فوقیت دینا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ (۳) اس سے پتا چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس سادگی اور مشکل سے زندگی بسر کرتے کہ آپ کے تمام گھروں میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ (۴) مہمان کو لے جانے والے سیدنا ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔