الادب المفرد - حدیث 739

كِتَابُ بَابُ دَالَّةِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ قَالَ: أَدْرَكْتُ السَّلَفَ، وَإِنَّهُمْ لَيَكُونُونَ فِي الْمَنْزِلِ الْوَاحِدِ بِأَهَالِيهِمْ، فَرُبَّمَا نَزَلَ عَلَى بَعْضِهُمُ الضَّيْفُ، وَقِدْرُ أَحَدِهِمْ عَلَى النَّارِ، فَيَأْخُذُهَا صَاحِبُ الضَّيْفِ لِضَيْفِهِ، فَيَفْقِدُ الْقِدْرَ صَاحِبُهَا فَيَقُولُ: مَنْ أَخَذَ الْقِدْرَ؟ فَيَقُولُ صَاحِبُ الضَّيْفِ: نَحْنُ أَخَذْنَاهَا لِضَيْفِنَا، فَيَقُولُ صَاحِبُ الْقِدْرِ: بَارَكَ اللَّهُ لَكُمْ فِيهَا - أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَ بَقِيَّةُ: وَقَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْخُبْزُ إِذَا خَبَزُوا مِثْلُ ذَلِكَ، وَلَيْسَ بَيْنَهُمْ إِلَّا جُدُرُ الْقَصَبِ. قَالَ بَقِيَّةُ: وَأَدْرَكْتُ أَنَا ذَلِكَ: مُحَمَّدَ بْنَ زِيَادٍ وَأَصْحَابَهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 739

کتاب اہل اسلام کی آپس میں بے تکلفي کا بیان محمد بن زیاد رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سلف (صحابہ و تابعین)کو پایا کہ وہ ایک ہی مکان میں اہل و عیال کے ساتھ رہتے تھے۔ جب کبھی ان میں سے کسی کا مہمان آجاتا اور ان کی ہنڈیا پک رہی ہوتی تو مہمان والا اسے اپنے مہمان کے لیے لے لیتا۔ ہانڈی والا جب ہانڈی غائب پاتا تو پوچھتا کہ ہانڈی کس نے لی ہے؟ مہمان والا کہتا:ہم نے مہمان کے لیے لی ہے۔ ہانڈی والا کہتا:اللہ تمہیں اس میں برکت دے یا اس طرح کے کلمات کہتا۔ بقیہ کہتے ہیں کہ محمد نے کہا:اور جب وہ روٹی پکاتے تو بھی اسی طرح ہوتا اور ان کے گھروں کے درمیان صرف بانس کی دیوار ہوتی۔ بقیہ رحمہ اللہ نے کہا:اور میں نے بھی اپنے استاد محمد اور ان کے ساتھیوں کو اسی طریقے پر پایا۔
تشریح : (۱)مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے بے تکلفانہ رویہ ہونا چاہیے۔ یہ عین فطرت ہے۔ یہ طریقہ مسلمانوں میں عرصہ تک رائج رہا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح رہتے تھے۔ پھر اسلامی اقدار کی جگہ مغربی تہذیب اور خود غرضی نے لے لی اور ہر شخص اپنی ذات تک محدود ہوگیا اور ایثار و قربانی اور ہمدردی کا جذبہ مفقود ہوگیا۔ پھر امریکن سسٹم رائج ہوگیا کہ مہمان اپنا بل پے کرے اور میزبان اپنا۔ مسلمانوں میں اب بھی خال خال یہ جذبہ ملتا ہے لیکن مغربی معاشرہ اس برکت سے محروم ہوچکا ہے۔ (۲) قارئین کے استفادے کے لیے ایک واقعہ درج کر رہا ہوں۔ دارالسلام انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر محترم عبدالمالک مجاہد صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ میں نے ایک دن گھر میں دعوت کا اہتمام کیا جس میں ایک امریکی نو مسلم کو بھی مدعو کیا۔ واپسی پر ایک پلیٹ بریانی میں نے انہیں پیش کی کہ اپنی اہلیہ کے لیے لے جانا۔ وہ ششدر رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے کہا:واقعی! میں نے کہا:ہاں، تو اس نے کہا کہ یہ پلیٹ کا کیا بنے گا۔ میں نے کہا:یہ بھی آپ کے لیے ہے۔ اس نے حیرت سے کہا:Plate also for me? پلیٹ بھی میرے لیے تحفہ ہے؟ آج اس نفسا نفسی کے دور میں اسلامی تعلیمات اور اقدار کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک قبیلے کی تعریف فرمائی کہ جب ان کا سامان کم پڑ جاتا ہے تو سارا ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں اور پھر برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البیهقي في شعب الایمان:۱۰۸۷۹۔ (۱)مسلمان آپس میں بھائی ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے بے تکلفانہ رویہ ہونا چاہیے۔ یہ عین فطرت ہے۔ یہ طریقہ مسلمانوں میں عرصہ تک رائج رہا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح رہتے تھے۔ پھر اسلامی اقدار کی جگہ مغربی تہذیب اور خود غرضی نے لے لی اور ہر شخص اپنی ذات تک محدود ہوگیا اور ایثار و قربانی اور ہمدردی کا جذبہ مفقود ہوگیا۔ پھر امریکن سسٹم رائج ہوگیا کہ مہمان اپنا بل پے کرے اور میزبان اپنا۔ مسلمانوں میں اب بھی خال خال یہ جذبہ ملتا ہے لیکن مغربی معاشرہ اس برکت سے محروم ہوچکا ہے۔ (۲) قارئین کے استفادے کے لیے ایک واقعہ درج کر رہا ہوں۔ دارالسلام انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر محترم عبدالمالک مجاہد صاحب نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ میں نے ایک دن گھر میں دعوت کا اہتمام کیا جس میں ایک امریکی نو مسلم کو بھی مدعو کیا۔ واپسی پر ایک پلیٹ بریانی میں نے انہیں پیش کی کہ اپنی اہلیہ کے لیے لے جانا۔ وہ ششدر رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اس نے کہا:واقعی! میں نے کہا:ہاں، تو اس نے کہا کہ یہ پلیٹ کا کیا بنے گا۔ میں نے کہا:یہ بھی آپ کے لیے ہے۔ اس نے حیرت سے کہا:Plate also for me? پلیٹ بھی میرے لیے تحفہ ہے؟ آج اس نفسا نفسی کے دور میں اسلامی تعلیمات اور اقدار کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک قبیلے کی تعریف فرمائی کہ جب ان کا سامان کم پڑ جاتا ہے تو سارا ایک جگہ جمع کرلیتے ہیں اور پھر برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔