الادب المفرد - حدیث 737

كِتَابُ بَابُ الْغِيبَةِ لِلْمَيِّتِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْهَضْهَاضِ الدَّوْسِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِكٍ الْأَسْلَمِيُّ، فَرَجَمَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الرَّابِعَةِ، فَمَرَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ رَجُلَانِ مِنْهُمْ: إِنَّ هَذَا الْخَائِنَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِرَارًا، كُلُّ ذَلِكَ يَرُدُّهُ، حَتَّى قُتِلَ كَمَا يُقْتَلُ الْكَلْبُ، فَسَكَتَ عَنْهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَرَّ بِجِيفَةِ حِمَارٍ شَائِلَةٌ رِجْلُهُ، فَقَالَ: ((كُلَا مِنْ هَذَا)) ، قَالَا: مِنْ جِيفَةِ حِمَارٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((فَالَّذِي نِلْتُمَا مِنْ عِرْضِ أَخِيكُمَا آنِفًا أَكْثَرُ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ فَإِنَّهُ فِي نَهْرٍ مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ يَتَغَمَّسُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 737

کتاب مردہ شخص کی غیبت کی ممانعت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ آئے اور زنا کی وجہ سے سزا نافذ کرنے کی درخواست کی۔ چوتھی مرتبہ آنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کر دیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ ان کے پاس سے گزرے تو صحابہ میں سے دو آدمیوں نے کہا:یہ خائن خود بار بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ ہر بار اسے واپس کرتے رہے حتی کہ کتے کی موت مرگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حتی کہ آپ ایک مردہ گدھے کے پاس سے گزرے۔ پھول جانے کی وجہ سے اس کی ٹانگ اوپر اٹھی ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا:’’تم دونوں اس میں سے کھاؤ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:مردہ گدھے میں سے کھائیں اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا:’’وہ جو تم نے ابھی ابھی اپنے بھائی کی غیبت کی ہے وہ اس سے زیادہ برا کام ہے۔‘‘ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں غوطے مار رہا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے، تاہم فوت شدہ شخص کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے اس کی برائی بیان نہیں کرنی چاہیے جبکہ وہ مسلمان بھی ہو۔ کیونکہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کر دیا ہو۔ نیز سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ کا قصہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدگان کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ((لا تسبو الاموات فاتهم قد افضوان الی ما قدموا))(صحیح بخاري:۱۳۹۳) ’’فوت شدگان کو برا نہ کہو کیونکہ وہ اپنے کیے ہوئے کو مل چکے ہیں (اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اب ہمیں ان کے بارے میں کوئی بات کرنے کی ضرورت اور فائدہ نہیں۔ البتہ ان کی کوبیاں بیان کی جا سکتی ہیں بلکہ مستحسن ہے تاکہ اللہ کے ہاں گواہی ہو جائے۔‘‘ (۲) زندہ کی طرح مردہ شخص کی غیبت کرنا بھی مردار کھانے کے مترادف ہے آپ نے فرمایا کہ مردار کھانا تمہیں پسند نہیں اور اسے بڑا جرم کرتے ہوئے تمہیں جھجک کیوں محسوس نہیں ہوئی۔ (۳) حضرت ماعز نے گناہ سے سچی توبہ کی اور حد کے نفاذ کا اصرار کیا تاکہ آخرت کی سزا سے بچ جائے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ معلوم ہوا کہ حدود انسان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے، آپ نے فرمایا: ((وَمَنْ أصَابَ مِنْ ذَالِكَ شَیْئًا فُعُوقِبَ بِهِ فَهُوَ کَفَّارَتُهُ))(صحیح البخاري، الحدود:۶۷۸۴) ’’اور جس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا اور پھر اسے اس کی سزا مل گئی تو وہ اس کا کفارہ بن جائے گی۔‘‘ (۴) گناہ کرنے والے کی اصلاح کے لیے اسے تنبیہ کرنا جائز ہے، تاہم اسے محض تنقید کا نشانہ بنانا، عار دلانا یا اُسے سزا ملنے کے بعد اس کی برائی کرنا ناجائز ہے بلکہ بسا اوقات گناہ کرنے والا توبہ کرکے مغفرت کروا لیتا ہے اور تبصرہ کرنے والے تباہ ہو جاتے ہیں۔
تخریج : ضعیف:أخرجه أبي داود، کتاب الحدود:۴۴۲۸۔ والنسائي في الکبریٰ:۷۱۲۷۔ انظر الضعیفة:۶۳۱۸۔ (۱)یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے، تاہم فوت شدہ شخص کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہیے اس کی برائی بیان نہیں کرنی چاہیے جبکہ وہ مسلمان بھی ہو۔ کیونکہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کر دیا ہو۔ نیز سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ کا قصہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدگان کو برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ((لا تسبو الاموات فاتهم قد افضوان الی ما قدموا))(صحیح بخاري:۱۳۹۳) ’’فوت شدگان کو برا نہ کہو کیونکہ وہ اپنے کیے ہوئے کو مل چکے ہیں (اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اب ہمیں ان کے بارے میں کوئی بات کرنے کی ضرورت اور فائدہ نہیں۔ البتہ ان کی کوبیاں بیان کی جا سکتی ہیں بلکہ مستحسن ہے تاکہ اللہ کے ہاں گواہی ہو جائے۔‘‘ (۲) زندہ کی طرح مردہ شخص کی غیبت کرنا بھی مردار کھانے کے مترادف ہے آپ نے فرمایا کہ مردار کھانا تمہیں پسند نہیں اور اسے بڑا جرم کرتے ہوئے تمہیں جھجک کیوں محسوس نہیں ہوئی۔ (۳) حضرت ماعز نے گناہ سے سچی توبہ کی اور حد کے نفاذ کا اصرار کیا تاکہ آخرت کی سزا سے بچ جائے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ معلوم ہوا کہ حدود انسان کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے، آپ نے فرمایا: ((وَمَنْ أصَابَ مِنْ ذَالِكَ شَیْئًا فُعُوقِبَ بِهِ فَهُوَ کَفَّارَتُهُ))(صحیح البخاري، الحدود:۶۷۸۴) ’’اور جس نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا اور پھر اسے اس کی سزا مل گئی تو وہ اس کا کفارہ بن جائے گی۔‘‘ (۴) گناہ کرنے والے کی اصلاح کے لیے اسے تنبیہ کرنا جائز ہے، تاہم اسے محض تنقید کا نشانہ بنانا، عار دلانا یا اُسے سزا ملنے کے بعد اس کی برائی کرنا ناجائز ہے بلکہ بسا اوقات گناہ کرنے والا توبہ کرکے مغفرت کروا لیتا ہے اور تبصرہ کرنے والے تباہ ہو جاتے ہیں۔