كِتَابُ بَابُ مَنْ حَكَى كَلَامَ الرَّجُلِ عِنْدَ الْعِتَابِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، - وَمُسْلِمٌ نَحْوَهُ - قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي نَوْفَلِ بْنِ أَبِي عَقْرَبَ، أَنَّ أَبَاهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ، فَقَالَ: ((صُمْ يَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ)) ، قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، زِدْنِي، قَالَ: ((زِدْنِي، زِدْنِي، صُمْ يَوْمَيْنِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ)) ، قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، زِدْنِي، فَإِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، فَقَالَ: ((إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا)) ، فَأَفْحَمَ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ لَنْ يَزِيدَنِي، ثُمَّ قَالَ: ((صُمْ ثَلَاثًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ))
کتاب
ڈانٹ کے وقت دوسرے کی بات کی نقل کرنا
ابو نوفل رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ابو عقرب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا:’’ہر مہینے میں ایک روزہ رکھا کرو۔‘‘ میں نے کہا:میرے ماں باپ آپ پر قربان اور زیادہ کی اجازت دیجیے۔ آپ نے فرمایا:’’اور زیادہ اور زیادہ، ہر مہینے میں دو روزے رکھ لو۔‘‘ میں نے عرض کیا:میرے ماں باپ آپ پر قربان، اور زیادہ کی اجازت دیجیے۔ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا:’’مجھ میں زیادہ کی طاقت ہے، مجھ میں زیادہ کی طاقت ہے۔‘‘ آپ نے چپ کرا دیا یہاں تک کہ میں نے گمان کیا آپ اس سے زیادہ کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا:ہر مہینے میں تین روزے رکھا کرو۔‘‘
تشریح :
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ کسی سے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے یا سرزنش کرنے کے لیے اس کی بات دہرانا جائز ہے۔ اس میں ڈانٹ کے ساتھ شفقت کا اظہار بھی ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ کو وہ عمل پسند ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ تھوڑا ہی ہو۔ اس لیے آپ نے سائل کو تھوڑا عمل اختیار کرنے کا حکم دیا۔ آپ ہر سائل کو اس کی حیثیت کے مطابق جواب دیتے اور ایمان کے مطابق عمل کا حکم ارشاد فرماتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کو ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا حکم دیا اور یہ صورت سب سے افضل ہے لیکن اس کے لیے جسے باقاعدگی کی امید ہو ورنہ مہینے میں تین روزے رکھ لے۔ اور یہ روزے ایام بیض یعنی اسلامی مہینے کی ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ کو رکھے جائیں جیسا کہ بہت سے صحابہ کا اس پر عمل تھا۔
تخریج :
صحیح:أخرجه النسائی، کتاب الصیام:۲۴۳۵۔
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ کسی سے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے یا سرزنش کرنے کے لیے اس کی بات دہرانا جائز ہے۔ اس میں ڈانٹ کے ساتھ شفقت کا اظہار بھی ہے۔
(۲) اللہ تعالیٰ کو وہ عمل پسند ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ تھوڑا ہی ہو۔ اس لیے آپ نے سائل کو تھوڑا عمل اختیار کرنے کا حکم دیا۔ آپ ہر سائل کو اس کی حیثیت کے مطابق جواب دیتے اور ایمان کے مطابق عمل کا حکم ارشاد فرماتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کو ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا حکم دیا اور یہ صورت سب سے افضل ہے لیکن اس کے لیے جسے باقاعدگی کی امید ہو ورنہ مہینے میں تین روزے رکھ لے۔ اور یہ روزے ایام بیض یعنی اسلامی مہینے کی ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ کو رکھے جائیں جیسا کہ بہت سے صحابہ کا اس پر عمل تھا۔