كِتَابُ بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ الرِّيحِ حَدَّثَنَا خَلِيفَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا هَاجَتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ قَالَ: ((اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ))
کتاب
ہوا چلنے کے وقت کی دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تیز ہوا چلتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے:’’اے اللہ میں تجھ سے اس خیر کا سوال کرتا ہوں جو یہ ہوا دے کر بھیجی گئی ہے اور اس شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو یہ ہوا دے کر بھیجی گئی ہے۔‘‘
تشریح :
(۱)ہوا سے زندگی کی بقا ہے اور اس کے بے شمار فوائد ہیں، جیسے درختوں کی اصلاح، انسانی جسم کی صحت وغیرہ کا دارومدار اسی پر ہے۔ اور اس کا نقصان یہ ہے کہ جب یہ حد سے تجاوز کر جائے تو عذاب بن جاتی ہے۔
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اس لیے فرماتے کہ پہلی کئی قومیں اسی ہوا کے ذریعے تباہ کی گئیں جیسے قوم عاد وغیرہ۔ اس لیے آندھی چلنے کے وقت یہ دعا مسنون اور مستحب ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه ابن أبي الدنیا في المطر:۱۲۹۔ والطبراني في الدعاء:۹۶۹۔ وأبي یعلیٰ:۲۸۹۸۔ انظر الصحیحة:۲۷۵۷۔
(۱)ہوا سے زندگی کی بقا ہے اور اس کے بے شمار فوائد ہیں، جیسے درختوں کی اصلاح، انسانی جسم کی صحت وغیرہ کا دارومدار اسی پر ہے۔ اور اس کا نقصان یہ ہے کہ جب یہ حد سے تجاوز کر جائے تو عذاب بن جاتی ہے۔
(۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اس لیے فرماتے کہ پہلی کئی قومیں اسی ہوا کے ذریعے تباہ کی گئیں جیسے قوم عاد وغیرہ۔ اس لیے آندھی چلنے کے وقت یہ دعا مسنون اور مستحب ہے۔