الادب المفرد - حدیث 711

كِتَابُ بَابُ مَا يُدَّخَرُ لِلدَّاعِي مِنَ الْأَجْرِ وَالثَّوَابِ حَدَّثَنَا ابْنُ شَيْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مَوْهَبٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يَنْصُبُ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ يَسْأَلُهُ مَسْأَلَةً، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهَا، إِمَّا عَجَّلَهَا لَهُ فِي الدُّنْيَا، وَإِمَّا ذَخَرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مَا لَمْ يَعْجَلْ)) ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا عَجَلَتُهُ؟ قَالَ: " يَقُولُ: دَعَوْتُ وَدَعَوْتُ، وَلَا أُرَاهُ يُسْتَجَابُ لِي "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 711

کتاب دعا کرنے والے کے لیے اجر و ثواب کے ذخیرہ ہونے کا بیان سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو مومن اللہ کی طرف متوجہ ہو کر کوئی سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے۔ یا تو دنیا ہی میں سوال کے مطابق عطا فرماتا ہے یا آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ کر دیتا ہے جب تک بندہ جلد بازی نہ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا:اللہ کے رسول! جلد بازی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:’’وہ کہتا ہے:میں نے دعا کی، پھر دعا کی لیکن دعا قبول ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
تشریح : (۱)بندے کی سوچ اور اس کا علم نہایت محدود ہے۔ اس لیے وہ ظاہری اور سطحی فوائد کا سوچتا ہے۔ اگر اسے ظاہراً نفع نہ ملے تو وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ خسارے میں ہے۔ لیکن خالق کائنات بندے کے مفاد کو اس سے بہتر جانتا ہے کہ کون سی چیز ان کے لیے مناسب ہے اور کون سی غیر موزوں ہے اس لیے وہ اپنی حکمت کے مطابق دیتا ہے۔ (۲) جس طرح مریض آدمی کو اس کی چاہت کی ہر چیز نہیں دی جاتی اسی طرح مریض دنیا کو بھی اس کی ہر خواہش اللہ تعالیٰ نہیں دیتا بلکہ صرف وہی دیتا ہے جو اس کے لیے سود مند ہو، خصوصاً مسلمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اس لیے اس دنیا سے زیادہ اس کی آخرت کو بہتر فرماتا ہے۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ اپنی سمجھ کے مطابق کثرت سے مانگتا رہے اور کبھی یہ نہ کہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی بلکہ یہ امید رکھے کہ وہ حدیث میں مذکور چیزوں میں سے ایک چیز کو حاصل کر چکا ہے۔ (۳) یاد رہے کہ ان عوارض سے بچا جائے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۹۷۸۵۔ والحاکم:۱؍ ۴۹۷۔ والبیهقي في الدعوات الکبیر:۳۷۸۔ (۱)بندے کی سوچ اور اس کا علم نہایت محدود ہے۔ اس لیے وہ ظاہری اور سطحی فوائد کا سوچتا ہے۔ اگر اسے ظاہراً نفع نہ ملے تو وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ خسارے میں ہے۔ لیکن خالق کائنات بندے کے مفاد کو اس سے بہتر جانتا ہے کہ کون سی چیز ان کے لیے مناسب ہے اور کون سی غیر موزوں ہے اس لیے وہ اپنی حکمت کے مطابق دیتا ہے۔ (۲) جس طرح مریض آدمی کو اس کی چاہت کی ہر چیز نہیں دی جاتی اسی طرح مریض دنیا کو بھی اس کی ہر خواہش اللہ تعالیٰ نہیں دیتا بلکہ صرف وہی دیتا ہے جو اس کے لیے سود مند ہو، خصوصاً مسلمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اس لیے اس دنیا سے زیادہ اس کی آخرت کو بہتر فرماتا ہے۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ اپنی سمجھ کے مطابق کثرت سے مانگتا رہے اور کبھی یہ نہ کہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی بلکہ یہ امید رکھے کہ وہ حدیث میں مذکور چیزوں میں سے ایک چیز کو حاصل کر چکا ہے۔ (۳) یاد رہے کہ ان عوارض سے بچا جائے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔