الادب المفرد - حدیث 700

كِتَابُ بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ الْكَرْبِ حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو عِنْدَ الْكَرْبِ: ((لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 700

کتاب بے چینی کے وقت کی دعا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے چینی اور اضطراب کے وقت یوں دعا کرتے تھے:لا اله الا الله....اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو عظمت والا اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو آسمان و زمین کا رب ہے اور رب ہے عرش عظیم کا۔‘‘
تشریح : (۱)کرب ایسے غم کو کہتے ہیں جو چمٹ جائے اور انسان کو ہر وقت پریشان رکھے۔ (۲) یہ ذکر ہے دعا نہیں۔ اس کا جواب دو طرح سے ہے:ایک یہ ہے کہ یہ ذکر ہے جس کے ساتھ دعا شروع کی جائے، پھر جو مرضی ہے دعا کرے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ دعا کبھی صریح ہوتی ہے اور کبھی اشارتاً۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بھی دعا کی ایک قسم ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ جو شخص سیدنا ایوب علیہ السلام کی دعا:لا اله الاَّ أنت سبحانك ....کے ساتھ دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرماتا ہے۔ (جامع الترمذي، ح:۳۵۰۵) (۳) مسلمان کو پہنچنے والا غم اور تکلیف کبھی اس کے لیے تنبیہ ہوتی ہے اور کبھی اس کی تربیت مقصود ہوتی ہے اور کبھی درجات کی بلندی اس کا سبب ہوتا ہے اس لیے بندے کو اپنے اللہ کے بارے میں ہمیشہ پر امید رہنا چاہیے کہ وہ ضرور یہ مصیبت دور کرے گا۔ (۴) سلف صالحین سے بے شمار ایسے واقعات منقول ہیں کہ انہوں نے نہایت مشکل وقت میں دعائے کرب پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات عطا فرمائی۔ ابوبکر بن علی کو قید کر دیا گیا۔ ابوبکر رازی نے خواب میں دیکھا۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خواب میں فرما رہے ہیں کہ ابوبکر بن علی کو کہو کہ صحیح بخاری میں منقول دعائے کرب پڑھے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے رہائی دے۔ میں نے صبح جاکر انہیں بتایا تو انہوں نے یہ دعا پڑھی تو تھوڑے عرصے بعد ہی جیل سے باہر آگئے۔ اس طرح کے کئی اور واقعات بھی منقول ہیں۔ (فتح الباري)اس لیے مشکل کے وقت اس دعا کا ورد کرنا چاہیے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الدعوات:۶۳۴۵۔ ومسلم:۲۷۳۰۔ والنسائي في الکبریٰ:۷۶۲۷۔ والترمذي:۳۴۳۵۔ وابن ماجة:۳۸۸۳۔ (۱)کرب ایسے غم کو کہتے ہیں جو چمٹ جائے اور انسان کو ہر وقت پریشان رکھے۔ (۲) یہ ذکر ہے دعا نہیں۔ اس کا جواب دو طرح سے ہے:ایک یہ ہے کہ یہ ذکر ہے جس کے ساتھ دعا شروع کی جائے، پھر جو مرضی ہے دعا کرے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ دعا کبھی صریح ہوتی ہے اور کبھی اشارتاً۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بھی دعا کی ایک قسم ہے۔ حدیث نبوی ہے کہ جو شخص سیدنا ایوب علیہ السلام کی دعا:لا اله الاَّ أنت سبحانك ....کے ساتھ دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرماتا ہے۔ (جامع الترمذي، ح:۳۵۰۵) (۳) مسلمان کو پہنچنے والا غم اور تکلیف کبھی اس کے لیے تنبیہ ہوتی ہے اور کبھی اس کی تربیت مقصود ہوتی ہے اور کبھی درجات کی بلندی اس کا سبب ہوتا ہے اس لیے بندے کو اپنے اللہ کے بارے میں ہمیشہ پر امید رہنا چاہیے کہ وہ ضرور یہ مصیبت دور کرے گا۔ (۴) سلف صالحین سے بے شمار ایسے واقعات منقول ہیں کہ انہوں نے نہایت مشکل وقت میں دعائے کرب پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات عطا فرمائی۔ ابوبکر بن علی کو قید کر دیا گیا۔ ابوبکر رازی نے خواب میں دیکھا۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں خواب میں فرما رہے ہیں کہ ابوبکر بن علی کو کہو کہ صحیح بخاری میں منقول دعائے کرب پڑھے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے رہائی دے۔ میں نے صبح جاکر انہیں بتایا تو انہوں نے یہ دعا پڑھی تو تھوڑے عرصے بعد ہی جیل سے باہر آگئے۔ اس طرح کے کئی اور واقعات بھی منقول ہیں۔ (فتح الباري)اس لیے مشکل کے وقت اس دعا کا ورد کرنا چاہیے۔