الادب المفرد - حدیث 70

كِتَابُ بَابُ مَنْ وَصَلَ رَحِمَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ثُمَّ أَسْلَمَ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ أُمُورًا كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، مِنْ صِلَةٍ، وَعَتَاقَةٍ، وَصَدَقَةٍ، فَهَلْ لِي فِيهَا أَجْرٌ؟ قَالَ حَكِيمٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 70

کتاب جس نے جاہلیت میں صلہ رحمی کی اور پھر مسلمان ہوگیا (تو اس کا ثواب) حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:اللہ کے رسول! آپ ان امور کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں جو میں زمانہ جاہلیت میں بطور عبادت کرتا تھا، مثلاً صلہ رحمی، غلاموں کو آزاد کرنا اور صدقہ کرنا کیا مجھے ان کا ثواب ملے گا؟ حکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تم اپنے سابقہ خیر کے کاموں پر اسلام لائے ہو۔‘‘
تشریح : (۱)حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے، قریش کے معزز لوگوں میں سے تھے اور قبل از اسلام بھی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ بہت فیاض تھے۔ ساٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول اور ۱۲۰ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ (۲) زمانہ جاہلیت میں بھی کئی افراد ایسے تھے جن میں انسانی ہمدردی، صلہ رحمی اور دیگر امور خیر کا جذبہ تھا جن میں حکیم بن حزام کے علاوہ ابن جدعان اور مطعم بن عدی قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے بعض کو تو اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور بعض کفر پر ہی مرگئے۔ اسلام قبول کرنے والوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے زمانہ جاہلیت میں کیے ہوئے امور خیر پر بھی اجر عطا فرمائے گا۔ (۳) کافروں کے اعمال کی قبولیت اور عدم قبولیت میں اختلاف ہے۔ راجح یہ ہے کہ جو کافر حالت کفر میں مرجائے اس کے اعمال اکارت جائیں گے۔ اس کے اچھے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو دنیا ہی میں اسے دے دے گا اور جو کافر اسلام لے آئے اور پھر اسلام پر ہی اس کی موت آئے تو اس کے کفر کی حالت میں کیے ہوئے اعمال کا ثواب بھی ملے گا۔ دوسرے معنوں میں زمانہ کفر میں اس کے اعمال کا ثواب لکھا جاتا ہے، تاہم قبولیت اس کے اسلام لانے پر موقوف ہوتی ہے۔ اگر اسلام قبول کرلے تو اعمال قبول ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اسلام قبول کرکے اگر کوئی شخص نیک اعمال کرتا ہے پھر مرتد ہو جاتا ہے اور بالآخر اسلام قبول کرکے اسی پر مرتا ہے تو اس نے جو اعمال مرتد ہونے سے پہلے کیے تھے وہ بھی قبول ہوں گے۔ اس کی نماز وغیرہ بھی کافر کے برعکس قبول ہوگی کیونکہ اس نے وہ اعمال بحیثیت مسلمان کیے تھے جبکہ کافر کو صرف صلہ رحمی اور صدقے وغیرہ کا ثواب ملے گا۔ زمانہ کفر میں پڑھی ہوئی نمازوں کا نہیں۔ (صحیح الادب المفرد:۱؍۸۵)
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب البیوع، باب شراء المملوك من الحربي وهبته وعتقه:۲۲۲۰۔ ومسلم:۱۲۳۔ الصحیحة:۲۴۸۔ (۱)حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے، قریش کے معزز لوگوں میں سے تھے اور قبل از اسلام بھی فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ بہت فیاض تھے۔ ساٹھ سال کی عمر میں اسلام قبول اور ۱۲۰ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ (۲) زمانہ جاہلیت میں بھی کئی افراد ایسے تھے جن میں انسانی ہمدردی، صلہ رحمی اور دیگر امور خیر کا جذبہ تھا جن میں حکیم بن حزام کے علاوہ ابن جدعان اور مطعم بن عدی قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے بعض کو تو اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق دی اور بعض کفر پر ہی مرگئے۔ اسلام قبول کرنے والوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت سنائی کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے زمانہ جاہلیت میں کیے ہوئے امور خیر پر بھی اجر عطا فرمائے گا۔ (۳) کافروں کے اعمال کی قبولیت اور عدم قبولیت میں اختلاف ہے۔ راجح یہ ہے کہ جو کافر حالت کفر میں مرجائے اس کے اعمال اکارت جائیں گے۔ اس کے اچھے اعمال کا بدلہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے گا تو دنیا ہی میں اسے دے دے گا اور جو کافر اسلام لے آئے اور پھر اسلام پر ہی اس کی موت آئے تو اس کے کفر کی حالت میں کیے ہوئے اعمال کا ثواب بھی ملے گا۔ دوسرے معنوں میں زمانہ کفر میں اس کے اعمال کا ثواب لکھا جاتا ہے، تاہم قبولیت اس کے اسلام لانے پر موقوف ہوتی ہے۔ اگر اسلام قبول کرلے تو اعمال قبول ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اسلام قبول کرکے اگر کوئی شخص نیک اعمال کرتا ہے پھر مرتد ہو جاتا ہے اور بالآخر اسلام قبول کرکے اسی پر مرتا ہے تو اس نے جو اعمال مرتد ہونے سے پہلے کیے تھے وہ بھی قبول ہوں گے۔ اس کی نماز وغیرہ بھی کافر کے برعکس قبول ہوگی کیونکہ اس نے وہ اعمال بحیثیت مسلمان کیے تھے جبکہ کافر کو صرف صلہ رحمی اور صدقے وغیرہ کا ثواب ملے گا۔ زمانہ کفر میں پڑھی ہوئی نمازوں کا نہیں۔ (صحیح الادب المفرد:۱؍۸۵)