الادب المفرد - حدیث 7

كِتَابُ بَابُ بِرِّ وَالِدَيْهِ وَإِنْ ظَلَمَا حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ الْقَيْسِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ لَهُ وَالِدَانِ مُسْلِمَانِ يُصْبِحُ إِلَيْهِمَا مُحْتَسِبًا، إِلَّا فَتْحَ لَهُ اللَّهُ بَابَيْنِ - يَعْنِي: مِنَ الْجَنَّةِ - وَإِنْ كَانَ وَاحِدًا فَوَاحِدٌ، وَإِنْ أَغْضَبَ أَحَدَهُمَا لَمْ يَرْضَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى يَرْضَى عَنْهُ "، قِيلَ: وَإِنْ ظَلَمَاهُ؟ قَالَ: ((وَإِنْ ظَلَمَاهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 7

کتاب والدین کے ظلم کے باوجود ان سے حسن سلوک کرنا چاہیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے: جس مسلمان کے ماں باپ بحالت اسلام زندہ ہوں اور وہ اپنی صبح کا آغاز ان کے ساتھ حسن سلوک سے کرتا ہو اور یہ کام وہ ثواب کی نیت سے کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیتا ہے۔ اگر والدین میں سے ایک ہو، تو ایک دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ اور اگر ان کو ناراض کر دے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک وہ اس سے راضی نہیں ہو جاتے۔ کسی نے کہا: اگر وہ اس پر ظلم کرتے ہوں تو؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگرچہ وہ ظلم کرتے ہوں۔
تشریح : (۱)یہ روایت ضعیف ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن دوسری صحیح احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ والدین اگر زیادتی بھی کریں تو بھی ان کے ساتھ حسن سلوک ہی کرنا چاہیے۔ (۲) اکثر و بیشتر والدین اولاد پر ظلم نہیں کرتے لیکن اگر وہ کوئی ایسا حکم دیں جسے انسان زیادتی اور ظلم سمجھ رہا ہو تو اسے برداشت کرنا چاہیے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میرے نکاح میں ایک خاتون تھی جس سے مجھے از حد محبت تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے پسند نہیں کرتے تھے، انہوں نے مجھے کہا کہ اسے طلاق دے دو۔ میں نے انکار کیا تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور انہیں جاکر بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اسے طلاق دے دو۔ (صحیح الترغیب، حدیث: ۲۴۸۷) (۳) جہاں تک دنیوی امور کا تعلق ہے تو والدین کی زیادتی کے باوجود بھی ان سے حسن سلوک ہی کرنا چاہیے لیکن اگر والدین اللہ کی معصیت پر اکساتے ہیں تو پھر ان کی اطاعت کسی صورت بھی درست نہیں جیسا کہ پہلی حدیث کے تحت تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔
تخریج : ضعیف: أخرجه ابن المبارك فی الزهد: ۳۱۔ وابن ابی شیبة: ۲۵۴۰۷۔ والبیهقی فی شعب الایمان: ۲۵۳۷۔ (۱)یہ روایت ضعیف ہے شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن دوسری صحیح احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ والدین اگر زیادتی بھی کریں تو بھی ان کے ساتھ حسن سلوک ہی کرنا چاہیے۔ (۲) اکثر و بیشتر والدین اولاد پر ظلم نہیں کرتے لیکن اگر وہ کوئی ایسا حکم دیں جسے انسان زیادتی اور ظلم سمجھ رہا ہو تو اسے برداشت کرنا چاہیے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میرے نکاح میں ایک خاتون تھی جس سے مجھے از حد محبت تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے پسند نہیں کرتے تھے، انہوں نے مجھے کہا کہ اسے طلاق دے دو۔ میں نے انکار کیا تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور انہیں جاکر بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اسے طلاق دے دو۔ (صحیح الترغیب، حدیث: ۲۴۸۷) (۳) جہاں تک دنیوی امور کا تعلق ہے تو والدین کی زیادتی کے باوجود بھی ان سے حسن سلوک ہی کرنا چاہیے لیکن اگر والدین اللہ کی معصیت پر اکساتے ہیں تو پھر ان کی اطاعت کسی صورت بھی درست نہیں جیسا کہ پہلی حدیث کے تحت تفصیلی بحث گزر چکی ہے۔