الادب المفرد - حدیث 695

كِتَابُ بَابُ دَعَوَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بِتُّ عِنْدَ مَيْمُونَةَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَى حَاجَتَهُ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَأَتَى الْقِرْبَةَ فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا بَيْنَ وُضُوءَيْنِ، لَمْ يُكْثِرْ وَقَدْ أَبْلَغَ، فَصَلَّى، فَقُمْتُ فَتَمَطَّيْتُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَرَى أَنِّي كُنْتُ أَبْقِيهِ، فَتَوَضَّأْتُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عِنْدَ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِأُذُنِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَتَتَامَّتْ صَلَاتُهُ مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ، فَآذَنَهُ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، وَكَانَ فِي دُعَائِهِ: ((اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَأَعْظِمْ لِي نُورًا)) قَالَ كُرَيْبٌ: وَسَبْعًا فِي التَّابُوتِ. فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ وَلَدِ الْعَبَّاسِ، فَحَدَّثَنِي بِهِنَّ، فَذَكَرَ: عَصَبِي، وَلَحْمِي، وَدَمِي، وَشَعْرِي، وَبَشَرِي، وَذَكَرَ خَصْلَتَيْنِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 695

کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ ام المومنین سیدہ میمونہ کے ہاں گزاری تو رات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور قضائے حاجت، یعنی پیشاب کیا، پھر ہاتھ اور چہرہ دھو کر سوگئے۔ پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس تشریف لائے۔ اس کا تسمہ کھولا اور درمیانہ سا وضو کیا۔ زیادہ پانی نہ بہایا لیکن اچھی طرح مکمل وضو کیا اور نماز شروع کر دی۔ میں اٹھا اور انگڑائی لی اس ڈر سے کہ آپ مجھے دیکھ کر یہ خیال نہ کریں کہ جاگ کر آپ کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے وضو کیا۔ آپ ابھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو میں آپ کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا تو آپ نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر دائیں جانب کرلیا حتی کہ آپ نے اپنی رات کی نماز تیرہ رکعات پوری فرمائیں۔ پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ اور آپ جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز فجر کی اطلاع دی۔ آپ نے نماز پڑھائی لیکن وضو نہیں کیا۔ آپ کی دعا میں یہ کلمات بھی تھے:اے اللہ میرے دل میں نور کر دے میرے کانوں میں نور کر دے، میری دائیں جانب نور کر دے اور میری بائیں جانب نور کر دے، میرے اوپر، نیچے اور آگے پیچھے نو کر دے اور میرے لیے بڑا نور کر دے۔ کریب نے کہا کہ سات چیزیں (میرے پاس)تابوت میں (لکھی ہوئی موجود)ہیں۔ مجھے یاد نہیں۔ پھر میں حضرت عباس کی اولاد میں سے کسی کو ملا تو انہوں نے مجھے وہ چیز بتائیں۔ وہ یہ تھیں:میرے پٹھوں، میرے گوشت، میرے خون، میرے بالوں اور میری جلد میں بھی نور کر دے اور مزید دو چیز بھی ذکر کیں۔
تشریح : (۱)اس سے معلوم ہوا قیام اللیل کی رکعات زیادہ سے زیادہ تیرہ ہیں۔ اس میں وتر بھی شامل ہے۔ نیز رمضان کے علاوہ بھی اسے اتفاقی طور پر باجماعت ادا کیا جاسکتا ہے۔ (۲) مقتدی کو امام کے دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے جب کوئی تیسرا آدمی نہ ہو۔ نیز نماز کی اصلاح کے لیے نماز میں حرکت جائز ہے۔ اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔ اس سے ان لوگوں کے موقف کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ پاؤں اوپر اٹھ جائے تو نماز باطل ہو جاتی ہے۔ (۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو جاتی تھیں اور دل جاگتا تھا اس لیے سو کر اٹھنے کے بعد آپ کے لیے وضو کرنا ضروری نہیں تھا۔ ہاں اگر وضو ٹوٹ جاتا تو آپ وضو کرتے تھے۔ (۴) دعا میں جس نور کا ذکر ہے اس سے حقیقی نور بھی ہوسکتا ہے کہ ہر عضو روشن ہو جائے جس سے قیامت کی تاریکیوں میں روشنی حاصل کی جاسکے اور استعارتاً علم اور ہدایت بھی مراد ہوسکتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَهُوَ عَلَی نُوْرٍ مِنْ رَبِّهِ﴾ (الزمر:۲۲) ’’وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہیں۔‘‘ اور دونوں طرح کے نور بھی ہوسکتے ہیں۔ (۵) ہر عضو میں نور مانگنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر عضو اللہ کی اطاعت کا نمونہ ہو اور اسے اللہ کی معرفت حاصل ہو۔ ایک دفعہ نور مانگنے میں وہ زور نہیں ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الدعوات:۶۳۱۶۔ ومسلم:۷۶۳۔ والنسائي:۱۱۲۱۔ وأبي داود:۱۳۵۳۔ (۱)اس سے معلوم ہوا قیام اللیل کی رکعات زیادہ سے زیادہ تیرہ ہیں۔ اس میں وتر بھی شامل ہے۔ نیز رمضان کے علاوہ بھی اسے اتفاقی طور پر باجماعت ادا کیا جاسکتا ہے۔ (۲) مقتدی کو امام کے دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے جب کوئی تیسرا آدمی نہ ہو۔ نیز نماز کی اصلاح کے لیے نماز میں حرکت جائز ہے۔ اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔ اس سے ان لوگوں کے موقف کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ پاؤں اوپر اٹھ جائے تو نماز باطل ہو جاتی ہے۔ (۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو جاتی تھیں اور دل جاگتا تھا اس لیے سو کر اٹھنے کے بعد آپ کے لیے وضو کرنا ضروری نہیں تھا۔ ہاں اگر وضو ٹوٹ جاتا تو آپ وضو کرتے تھے۔ (۴) دعا میں جس نور کا ذکر ہے اس سے حقیقی نور بھی ہوسکتا ہے کہ ہر عضو روشن ہو جائے جس سے قیامت کی تاریکیوں میں روشنی حاصل کی جاسکے اور استعارتاً علم اور ہدایت بھی مراد ہوسکتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَهُوَ عَلَی نُوْرٍ مِنْ رَبِّهِ﴾ (الزمر:۲۲) ’’وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر ہیں۔‘‘ اور دونوں طرح کے نور بھی ہوسکتے ہیں۔ (۵) ہر عضو میں نور مانگنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر عضو اللہ کی اطاعت کا نمونہ ہو اور اسے اللہ کی معرفت حاصل ہو۔ ایک دفعہ نور مانگنے میں وہ زور نہیں ہے۔