الادب المفرد - حدیث 69

كِتَابُ بَابُ فَضْلِ مَنْ يَصِلُ ذَا الرَّحِمِ الظَّالِمَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَةَ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، عَلِّمْنِي عَمَلًا يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: ((لَئِنْ كُنْتَ أَقَصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ، أَعْتِقِ النَّسَمَةَ، وَفُكَّ الرَّقَبَةَ)) قَالَ: أَوَ لَيْسَتَا وَاحِدًا؟ قَالَ: ((لَا، عِتْقُ النَّسَمَةِ أَنْ تَعْتِقَ النَّسَمَةَ، وَفَكُّ الرَّقَبَةِ أَنْ تُعِينَ عَلَى الرَّقَبَةِ، وَالْمَنِيحَةُ الرَّغُوبُ، وَالْفَيْءُ عَلَى ذِي الرَّحِمِ، فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ، فَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ، وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ، فَكُفَّ لِسَانَكَ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 69

کتاب ظالم قرابت دار سے صلہ رحمی کرنے والے کی فضیلت حضرت براء (بن عازب) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے عرض کیا:اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگرچہ تونے بات تو مختصر کی ہے لیکن تیرا سوال معنی خیز ہے، یعنی تو نے لمبا چوڑا سوال اس میں سمو دیا ہے (پھر آپ نے فرمایا:)جان کو آزاد کرو، گردن کو چھڑاؤ۔‘‘ اس نے کہا:کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں، جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تو کسی غلام کو آزاد کرے اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ تو کسی غلام کی آزادی میں معاونت کرے‘‘ (پھر فرمایا:)’’کسی کو دودھ والا ایسا جانور دو جس میں رغبت کی جاتی ہو، قرابت دار پر مہربانی اور شفقت کرو اور اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان کو بھلائی (کی بات کرنے)کے علاوہ روک کر رکھو۔‘‘
تشریح : (۱)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کے پیش نظر آپ سے سوال کرنے سے گھبراتے تھے، تاہم سادہ لوح دیہاتی بلا جھجک سوال کرتے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سادگی کی وجہ سے ان کی کمی کوتاہی سے بھی درگزر فرما دیتے۔ اس حدیث میں بھی ایک دیہاتی کے سوال کا ذکر ہے۔ (۲) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیشتر سوالات اخروی زندگی میں نجات پر مبنی ہوتے تھے جس کا علم احادیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہوسکتا ہے۔ اخروی زندگی میں سرخرو ہوکر جنت حاصل ہو جانا اسے قرآن مجید میں عظیم کامیابی قرار دیا گیا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس دیہاتی صحابی سے فرمایا کہ بظاہر تیرا سوال دو لفظی ہے لیکن ان دو لفظوں میں تو نے بڑے بڑے سوالات پوچھ لیے ہیں۔ اس لیے کہ مسلمان کے تمام اعمال دخول جنت کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ جنت مل گئی تو تمام اعمال با مقصد اور اگر جنت نہ ملی تو تمام کوششیں بے فائدہ ہیں۔ مسلمان کو ایسے اعمال کا علم ہونا چاہیے جو دخول جنت کا باعث بنتے ہیں۔ (۳) آپ نے ارشاد فرمایا:کسی غلام کو آزاد کرنا یا آزادی میں کسی کی معاونت کرنا ایسے اعمال ہیں جو دخول جنت کا باعث ہیں:فک الرقبۃ میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اگر کوئی شخص قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو اس کا قرض ادا کر دیا جائے، اسی طرح کسی کو چٹی پڑ گئی ہو تو اس کی معاونت کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی اس دور میں غلاموں کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی۔ آپ نے غلاموں کو آزاد کرنا حصول جنت کا ذریعہ بتا کر انسانیت کی آزادی کا درس دیا ہے۔ آج جو لوگ اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو باقی رکھا ہے اور اسے ختم نہیں کیا انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ صدیوں سے چلے ہوئے غلامی کے اس قانون کو یکسر ختم کرنا کسی طرح بھی ممکن نہ تھا لیکن اسلام میں کفارے کے طور پر، حصول جنت کے لیے اور دیگر کئی مواقع پر غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم اور ترغیب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام لوگوں کی آزادی کا خواہاں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کہ انہوں نے ہزاروں غلام آزاد کیے اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ (۴) اللہ تعالیٰ نے نظام دنیا چلانے کے لیے لوگوں کے مابین مالی تفاوت اور برتری رکھی ہے لیکن جنہیں زیادہ دیا ہے انہیں کم مال والوں پر خرچ کی ترغیب دی ہے۔ مال کی کئی قسمیں ہیں۔ کسی کے پاس روپیہ پیسہ ہوتا ہے، کسی کے پاس اناج و غلہ اور کسی کے پاس مویشیوں کی صورت میں مال ہوتا ہے۔ یہ سائل چونکہ دیہاتی تھے اور یقینا ان کے پاس مویشی ہوں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ترغیب دلائی کہ تم اپنا دودھ والا جانور کسی ضرورت مند کو مستقل یا عارضی طور پر دے کر بھی جنت حاصل کرسکتے ہو۔ دودھ والی گائے، بکری یا اونٹنی کے ہدیے کو منیحہ کہتے ہیں۔ (۵) قرابت دار پر مہربانی اور شفقت کرنا بھی حصول جنت کا ذریعہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان یہ قائم کیا ہے کہ ظالم رشتہ دار پر مہربانی کرنا جبکہ حدیث میں ’’ظالم‘‘ کا ذکر نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں یہ سمجھا ہوں کہ مصنف نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’قرابت دار پر مہربانی کرنا‘‘ سے یہ مفہوم اخذ کیا ہے کیونکہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ قرابت دار یا تو انصاف پسند اور نیکوکار ہوگا یا پھر ظالم اور برا ہوگا تو مصنف نے دوسری قسم کے پیش نظر یہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا:’’اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے‘‘ ظاہر ہے انصاف پسند اور نیکوکار کے ساتھ حسن سلوک تو مشکل نہیں اصل مسئلہ تو ظالم اور برے قرابت دار کے ساتھ حسن سلوک ہی کا ہے۔ (شرح صحیح الادب المفرد:۱؍۸۴) (۶) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بھی جنت کی منزل آسان ہوتی ہے۔ اسی پر مسلمانوں کی فلاح کا دارومدار ہے اور ایک حدیث میں اسے دعا کی قبولیت کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح جامع الترمذی، حدیث:۲۱۶۹)انسان بہت بھولنے والا ہے۔ اگر اسے نیکی کی تلقین ہوتی رہے اور برائی کی قباحت اس کے سامنے بیان کی جاتی رہے تو وہ راہ راست پر رہتا ہے اور اس فریضے کو انجام دینے والے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کم از کم اس کی اپنی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ (۷) نیکی اور حصول جنت کا آخری عمل یہ ہے کہ انسان اگر مذکورہ بالا امور میں سے کسی کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان پر کنٹرول رکھے۔ اسے بے جا استعمال نہ کرے۔ اس سے وہ گناہوں سے محفوظ رہے گا۔ اور انسان کے بیشتر گناہوں کا تعلق اس کی زبان ہی سے ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((أکْثَرُ خَطَایَا ابنِ آدَمَ فِي لِسَانِهٖ))(صحیح الترغیب والترهیب، حدیث:۲۸۷۲) ’’ابن آدم کے اکثر گناہوں کا تعلق اس کی زبان سے ہے۔‘‘
تخریج : صحیح:أخرجه احمد:۱۸۶۴۷۔ والطیالسي:۷۳۹۔ وابن حبان:۳۷۴۔ والمروزي في البر والصلة:۲۷۶۔ والبیهقي في الأدب:۷۷۔ صحیح الترغیب:۸۹۸۔ (۱)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کے پیش نظر آپ سے سوال کرنے سے گھبراتے تھے، تاہم سادہ لوح دیہاتی بلا جھجک سوال کرتے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی سادگی کی وجہ سے ان کی کمی کوتاہی سے بھی درگزر فرما دیتے۔ اس حدیث میں بھی ایک دیہاتی کے سوال کا ذکر ہے۔ (۲) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بیشتر سوالات اخروی زندگی میں نجات پر مبنی ہوتے تھے جس کا علم احادیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہوسکتا ہے۔ اخروی زندگی میں سرخرو ہوکر جنت حاصل ہو جانا اسے قرآن مجید میں عظیم کامیابی قرار دیا گیا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس دیہاتی صحابی سے فرمایا کہ بظاہر تیرا سوال دو لفظی ہے لیکن ان دو لفظوں میں تو نے بڑے بڑے سوالات پوچھ لیے ہیں۔ اس لیے کہ مسلمان کے تمام اعمال دخول جنت کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ جنت مل گئی تو تمام اعمال با مقصد اور اگر جنت نہ ملی تو تمام کوششیں بے فائدہ ہیں۔ مسلمان کو ایسے اعمال کا علم ہونا چاہیے جو دخول جنت کا باعث بنتے ہیں۔ (۳) آپ نے ارشاد فرمایا:کسی غلام کو آزاد کرنا یا آزادی میں کسی کی معاونت کرنا ایسے اعمال ہیں جو دخول جنت کا باعث ہیں:فک الرقبۃ میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اگر کوئی شخص قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے تو اس کا قرض ادا کر دیا جائے، اسی طرح کسی کو چٹی پڑ گئی ہو تو اس کی معاونت کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی اس دور میں غلاموں کی باقاعدہ تجارت ہوتی تھی۔ آپ نے غلاموں کو آزاد کرنا حصول جنت کا ذریعہ بتا کر انسانیت کی آزادی کا درس دیا ہے۔ آج جو لوگ اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو باقی رکھا ہے اور اسے ختم نہیں کیا انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ صدیوں سے چلے ہوئے غلامی کے اس قانون کو یکسر ختم کرنا کسی طرح بھی ممکن نہ تھا لیکن اسلام میں کفارے کے طور پر، حصول جنت کے لیے اور دیگر کئی مواقع پر غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم اور ترغیب اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام لوگوں کی آزادی کا خواہاں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل کہ انہوں نے ہزاروں غلام آزاد کیے اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ (۴) اللہ تعالیٰ نے نظام دنیا چلانے کے لیے لوگوں کے مابین مالی تفاوت اور برتری رکھی ہے لیکن جنہیں زیادہ دیا ہے انہیں کم مال والوں پر خرچ کی ترغیب دی ہے۔ مال کی کئی قسمیں ہیں۔ کسی کے پاس روپیہ پیسہ ہوتا ہے، کسی کے پاس اناج و غلہ اور کسی کے پاس مویشیوں کی صورت میں مال ہوتا ہے۔ یہ سائل چونکہ دیہاتی تھے اور یقینا ان کے پاس مویشی ہوں گے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ترغیب دلائی کہ تم اپنا دودھ والا جانور کسی ضرورت مند کو مستقل یا عارضی طور پر دے کر بھی جنت حاصل کرسکتے ہو۔ دودھ والی گائے، بکری یا اونٹنی کے ہدیے کو منیحہ کہتے ہیں۔ (۵) قرابت دار پر مہربانی اور شفقت کرنا بھی حصول جنت کا ذریعہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان یہ قائم کیا ہے کہ ظالم رشتہ دار پر مہربانی کرنا جبکہ حدیث میں ’’ظالم‘‘ کا ذکر نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں یہ سمجھا ہوں کہ مصنف نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’قرابت دار پر مہربانی کرنا‘‘ سے یہ مفہوم اخذ کیا ہے کیونکہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ قرابت دار یا تو انصاف پسند اور نیکوکار ہوگا یا پھر ظالم اور برا ہوگا تو مصنف نے دوسری قسم کے پیش نظر یہ عنوان قائم کیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا:’’اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے‘‘ ظاہر ہے انصاف پسند اور نیکوکار کے ساتھ حسن سلوک تو مشکل نہیں اصل مسئلہ تو ظالم اور برے قرابت دار کے ساتھ حسن سلوک ہی کا ہے۔ (شرح صحیح الادب المفرد:۱؍۸۴) (۶) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے بھی جنت کی منزل آسان ہوتی ہے۔ اسی پر مسلمانوں کی فلاح کا دارومدار ہے اور ایک حدیث میں اسے دعا کی قبولیت کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ (صحیح جامع الترمذی، حدیث:۲۱۶۹)انسان بہت بھولنے والا ہے۔ اگر اسے نیکی کی تلقین ہوتی رہے اور برائی کی قباحت اس کے سامنے بیان کی جاتی رہے تو وہ راہ راست پر رہتا ہے اور اس فریضے کو انجام دینے والے کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کم از کم اس کی اپنی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ (۷) نیکی اور حصول جنت کا آخری عمل یہ ہے کہ انسان اگر مذکورہ بالا امور میں سے کسی کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان پر کنٹرول رکھے۔ اسے بے جا استعمال نہ کرے۔ اس سے وہ گناہوں سے محفوظ رہے گا۔ اور انسان کے بیشتر گناہوں کا تعلق اس کی زبان ہی سے ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((أکْثَرُ خَطَایَا ابنِ آدَمَ فِي لِسَانِهٖ))(صحیح الترغیب والترهیب، حدیث:۲۸۷۲) ’’ابن آدم کے اکثر گناہوں کا تعلق اس کی زبان سے ہے۔‘‘