الادب المفرد - حدیث 68

كِتَابُ بَابُ لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، وَفِطْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو - قَالَ سُفْيَانُ لَمْ يَرْفَعْهُ الْأَعْمَشُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَفَعَهُ الْحَسَنُ وَفِطْرٌ - عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 68

کتاب برابری کی سطح پر حسن سلوک کرنے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو برابر سرابر معاملہ کرتا ہے، صلہ رحمی کرنے والا تو درحقیقت وہ ہے کہ جس سے تعلق توڑا جائے تو وہ پھر بھی صلہ رحمی کرے۔‘‘
تشریح : (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برابری کی سطح پر تعلقات رکھنے اور صلہ رحمی کرنے کو صلہ رحمی شمار نہیں کیا بلکہ اسے صرف بدلہ کہا ہے۔ لیکن افسوس آج ہمیں یہ صورت بھی مفقود نظر آتی ہے۔ قطع تعلقی و بائی مرض بن چکا ہے، ایک فریق قطع تعلقی کرتا ہے تو دوسرا توڑنے کے لیے پہلے تیار ہوتا ہے۔ صلہ رحمی صرف مفادات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ بہن بھائیوں کے بھی اگر ایک دوسرے سے مفادات وابستہ ہیں تو تعلقات بحال ہیں، بصورت دیگر بعد المشرقین کی کیفیت بنی ہوئی ہے۔ (۲) ’’جو تجھ سے توڑے اس سے جوڑ‘‘ یہ جملہ بہت معنی خیز ہے اور یہ کام نہایت مشکل ہے۔ لیکن جتنا یہ کام مشکل ہے اتنا ہی اس کا اجر بھی زیادہ ہے۔ موج دریا میں دوسری موجوں کے ساتھ ہی کوئی حیثیت رکھتی ہے بیرون دریا اس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ انسان کی زندگی خوبصورت تبھی ہوسکتی ہے جب اس کے عزیز و اقارب اس کے ساتھ ہوں۔ انسان جتنا باکمال ہو اگر رشتہ داروں سے کٹ جائے تو اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ معاشرے میں انہی لوگوں کو عزت ملتی ہے جو عزیز و اقارب کی غلطیوں کو دفن کر دیتے ہیں اور ان کی برائیوں اور بد سلوکیوں کی وجہ سے اپنی خیر کو روک نہیں لیتے۔ اللہ کے ہاں بھی ایسے ہی لوگوں کا مقام ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، الادب، باب لیس الواصل بالمکافی:۵۹۹۱۔ وأبي داود:۱۶۹۷۔ والترمذي:۱۹۰۸۔ (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برابری کی سطح پر تعلقات رکھنے اور صلہ رحمی کرنے کو صلہ رحمی شمار نہیں کیا بلکہ اسے صرف بدلہ کہا ہے۔ لیکن افسوس آج ہمیں یہ صورت بھی مفقود نظر آتی ہے۔ قطع تعلقی و بائی مرض بن چکا ہے، ایک فریق قطع تعلقی کرتا ہے تو دوسرا توڑنے کے لیے پہلے تیار ہوتا ہے۔ صلہ رحمی صرف مفادات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ بہن بھائیوں کے بھی اگر ایک دوسرے سے مفادات وابستہ ہیں تو تعلقات بحال ہیں، بصورت دیگر بعد المشرقین کی کیفیت بنی ہوئی ہے۔ (۲) ’’جو تجھ سے توڑے اس سے جوڑ‘‘ یہ جملہ بہت معنی خیز ہے اور یہ کام نہایت مشکل ہے۔ لیکن جتنا یہ کام مشکل ہے اتنا ہی اس کا اجر بھی زیادہ ہے۔ موج دریا میں دوسری موجوں کے ساتھ ہی کوئی حیثیت رکھتی ہے بیرون دریا اس کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ انسان کی زندگی خوبصورت تبھی ہوسکتی ہے جب اس کے عزیز و اقارب اس کے ساتھ ہوں۔ انسان جتنا باکمال ہو اگر رشتہ داروں سے کٹ جائے تو اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ معاشرے میں انہی لوگوں کو عزت ملتی ہے جو عزیز و اقارب کی غلطیوں کو دفن کر دیتے ہیں اور ان کی برائیوں اور بد سلوکیوں کی وجہ سے اپنی خیر کو روک نہیں لیتے۔ اللہ کے ہاں بھی ایسے ہی لوگوں کا مقام ہے۔