الادب المفرد - حدیث 678

كِتَابُ بَابُ دَعَوَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْقِلَّةِ وَالذِّلَّةِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 678

کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:’’اے اللہ میں فقر، قلت اور ذلت سے تیری پناہ چاہتا ہوں، نیز اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے۔‘‘
تشریح : (۱)طیبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ فقر کے لغوی معنی توڑنے کے ہیں اور یہ فقار الظہر سے ماخوذ ہے۔ اصطلاحی طور پر یہ چار معانی میں مستعمل ہے۔ ٭ حاجات ضروریہ کا وجود، یہ صورت تمام لوگوں کو اس وقت تک شامل ہے جب تک وہ اس دارفانی میں ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرآئُ اِلَی اللّٰهِ﴾ (فاطر:۱۵) ’’اے لوگو! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو۔‘‘ ٭ بنیادی ضرورت کا فقدان، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا في سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ (البقرہ:۲۷۳) ’’زکوٰۃ و صدقات ان فقراء اور ضرورت مندوں کے لیے ہیں جو اللہ کی راہ میں روک لیے گئے۔‘‘ ٭ عدم قناعت، یہ نفس کے غنا اور بے نیازی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات انسان مال و دولت کی کثرت کے باوجود فقیر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں قناعت نہیں ہوتی۔ ٭ اللہ تعالیٰ کی طرف فقیر ہونا، جیسے فرمایا:لا تفقرنی بالاستغناء عنك ’’مجھے اپنے سے بے نیاز کرکے فقیر نہ بنانا۔ (فضل الله الصمد) مذکورہ دعا میں تیسری صورت سے پناہ مانگی گئی ہے کہ انسان کے اندر حرص اور لالچ پیدا ہو جائے اور قناعت سے محروم ہو جائے۔ اسی دوسری صورت بھی مراد ہے جبکہ صبر اور اللہ کی رضا نہ ہو۔ (۲) قلت سے مرادنیکی اور خیر کے کاموں میں قلت ہے کیونکہ دنیا میں کثرت ممدوح نہیں ہے، بعض نے اس سے مال، دوستوں، اور صبر کی قلت مراد لی ہے کہ اس سے پناہ مانگی ہے کہ انسان بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو جائے اور اللہ کی عبادت بھی نہ کرسکے۔ (۳) ذلت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی لوگوں کے سامنے کوئی حیثیت نہ ہو اور وہ حقیر سمجھیں اور اس کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ لیکن یہاں زیادہ واضح معنی یہ معلوم ہوتے ہیں کہ معصیت اور نافرمانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ذلت مراد ہے۔ یا قلت کی بنا پر امراء کے سامنے ذلیل ہونا مراد ہے۔ (۴) آدمی ظالم ہو یا مظلوم ہر دو صورتوں میں اس کے لیے گھاٹا ہے۔ ظالم ہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ٹھہرے گا اور مظلوم ہو تو دنیا کی ذلت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور مایوسی کی وجہ سے اس سے دوری کا باعث بن سکتا ہے۔ گزشتہ اوراق میں قہر الرجال کی جن صورتوں سے پناہ کا ذکر ہوا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، کتاب الوتر:۱۵۴۴۔ والنسائي:۵۴۶۰۔ وابن ماجة:۳۸۴۲۔ (۱)طیبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ فقر کے لغوی معنی توڑنے کے ہیں اور یہ فقار الظہر سے ماخوذ ہے۔ اصطلاحی طور پر یہ چار معانی میں مستعمل ہے۔ ٭ حاجات ضروریہ کا وجود، یہ صورت تمام لوگوں کو اس وقت تک شامل ہے جب تک وہ اس دارفانی میں ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرآئُ اِلَی اللّٰهِ﴾ (فاطر:۱۵) ’’اے لوگو! تم سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہو۔‘‘ ٭ بنیادی ضرورت کا فقدان، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا في سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ (البقرہ:۲۷۳) ’’زکوٰۃ و صدقات ان فقراء اور ضرورت مندوں کے لیے ہیں جو اللہ کی راہ میں روک لیے گئے۔‘‘ ٭ عدم قناعت، یہ نفس کے غنا اور بے نیازی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات انسان مال و دولت کی کثرت کے باوجود فقیر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں قناعت نہیں ہوتی۔ ٭ اللہ تعالیٰ کی طرف فقیر ہونا، جیسے فرمایا:لا تفقرنی بالاستغناء عنك ’’مجھے اپنے سے بے نیاز کرکے فقیر نہ بنانا۔ (فضل الله الصمد) مذکورہ دعا میں تیسری صورت سے پناہ مانگی گئی ہے کہ انسان کے اندر حرص اور لالچ پیدا ہو جائے اور قناعت سے محروم ہو جائے۔ اسی دوسری صورت بھی مراد ہے جبکہ صبر اور اللہ کی رضا نہ ہو۔ (۲) قلت سے مرادنیکی اور خیر کے کاموں میں قلت ہے کیونکہ دنیا میں کثرت ممدوح نہیں ہے، بعض نے اس سے مال، دوستوں، اور صبر کی قلت مراد لی ہے کہ اس سے پناہ مانگی ہے کہ انسان بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو جائے اور اللہ کی عبادت بھی نہ کرسکے۔ (۳) ذلت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی لوگوں کے سامنے کوئی حیثیت نہ ہو اور وہ حقیر سمجھیں اور اس کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ لیکن یہاں زیادہ واضح معنی یہ معلوم ہوتے ہیں کہ معصیت اور نافرمانی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ذلت مراد ہے۔ یا قلت کی بنا پر امراء کے سامنے ذلیل ہونا مراد ہے۔ (۴) آدمی ظالم ہو یا مظلوم ہر دو صورتوں میں اس کے لیے گھاٹا ہے۔ ظالم ہو تو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ٹھہرے گا اور مظلوم ہو تو دنیا کی ذلت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور مایوسی کی وجہ سے اس سے دوری کا باعث بن سکتا ہے۔ گزشتہ اوراق میں قہر الرجال کی جن صورتوں سے پناہ کا ذکر ہوا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔