الادب المفرد - حدیث 672

كِتَابُ بَابُ دَعَوَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 672

کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا:’’اللہم انی....’’اے اللہ میں فکر مندی اور رنج سے، بے بسی اور کاہلی سے، بزدلی اور بخل سے پناہ چاہتا ہوں، نیز قرض کے چڑھ جانے اور لوگوں کے غالب ہونے سے تیری پناہ کا طالب ہوں۔‘‘
تشریح : (۱)متوقع پریشانی کو ’’ہم‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور کسی گزشتہ واقعہ یا نقصان پر پریشانی کو ’’حزن‘‘ کہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی پریشانیاں یا تو گزشتہ واقعات سے متعلق ہوتی ہیں جن پر پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یا ممکنہ خطرات ان کی زندگی کا روگ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ (۲) انسان جب قرض میں دب جاتا ہے تو پھر وعدہ کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور اس پریشانی میں اس کا دین بھی متاثر ہوتا ہے۔ (۳) آدمیوں کے غالب آنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کس و ناکس انسان پر چڑھائی کرتا رہے یا یہ کہ انسان لوگوں کے ظلم کا شکار رہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الدعوات:۶۳۶۹۔ وأبي داود:۱۵۴۱۔ والترمذي:۳۴۸۴۔ والنسائي:۵۴۴۹۔ (۱)متوقع پریشانی کو ’’ہم‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور کسی گزشتہ واقعہ یا نقصان پر پریشانی کو ’’حزن‘‘ کہتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی پریشانیاں یا تو گزشتہ واقعات سے متعلق ہوتی ہیں جن پر پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا یا ممکنہ خطرات ان کی زندگی کا روگ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ (۲) انسان جب قرض میں دب جاتا ہے تو پھر وعدہ کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور اس پریشانی میں اس کا دین بھی متاثر ہوتا ہے۔ (۳) آدمیوں کے غالب آنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر کس و ناکس انسان پر چڑھائی کرتا رہے یا یہ کہ انسان لوگوں کے ظلم کا شکار رہے۔