الادب المفرد - حدیث 67

كِتَابُ بَابُ عُقُوبَةِ قَاطِعِ الرَّحِمِ فِي الدُّنْيَا حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَى أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، مِنْ قَطِيعَةِ الرَّحِمِ وَالْبَغْيِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 67

کتاب قطع رحمی کرنے والے کی دنیا میں سزا حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قطع رحمی اور سرکشی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اللہ اس کے مرتکب کو دنیا میں بھی جلدی سزا دے اور اس کے ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا برقرار رکھے۔‘‘
تشریح : (۱)بعض گناہ اس قدر سنگین ہوتے ہیں کہ ان کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ان پر گرفت ہوگی، قطع رحمی انہی گناہوں میں سے ایک ہے۔ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے اثرات بہت جلد ظاہر ہو جاتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا نقصان، جس سے انسان قطع رحمی کے چوتھے روز ہی دو چار ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے بندے کا تعلق ٹوٹنا اور اس کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ أعاذنا الله منه (۲) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہرگناہ کی سزا فوراً نہیں دیتا کہ شاید میرا بندہ توبہ کرلے۔ اس لیے گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً توبہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انسان گناہوں کی سزا دنیا میں برداشت کرسکتا ہے نہ آخرت میں اس کے اندر ہمت ہوگی اس لیے اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کا سوال کرتے ہوئے عملی طور پر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۳) ایسے اسباب جو قطع رحمی کا سبب بنتے ہیں ان کو جاننا چاہیے اور پھر ان سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چند ایک اسباب حسب ذیل ہیں: ٭ اپنے جذبات کو ترجیح دینا اور دوسروں کے جذبات کی پروا نہ کرنا قطع رحمی کا سبب بنتا ہے۔ ٭ عزیز و اقارب کی ذاتی زندگی میں مداخلت ٭ برداشت کی قوت سے عاری انسان بھی بہت جلد تعلقات ختم کر بیٹھتا ہے۔ ٭ حد سے زیادہ ٹھٹھہ مذاق۔ ٭ ایک دوسرے کے بارے میں کسی تیسرے فرد سے شکوے شکایت۔ ٭ دنیا کی ہوس یا بڑا بننے کا شوق بھی بسا اوقات قطع رحمی کا سبب بنتا ہے۔ ٭ خود خوشحال رہنے کی تمنا اور دوسروں کی خوشحالی برداشت نہ ہونا۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، الأدب، باب في النهي عن البغي:۴۹۰۲۔ والترمذي:۲۵۱۱۔ وابن ماجة:۴۲۱۱۔ الصحیحة:۹۱۸، ۹۷۸۔ (۱)بعض گناہ اس قدر سنگین ہوتے ہیں کہ ان کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی ان پر گرفت ہوگی، قطع رحمی انہی گناہوں میں سے ایک ہے۔ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے اثرات بہت جلد ظاہر ہو جاتے ہیں اور اس کا سب سے بڑا نقصان، جس سے انسان قطع رحمی کے چوتھے روز ہی دو چار ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے بندے کا تعلق ٹوٹنا اور اس کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ أعاذنا الله منه (۲) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہرگناہ کی سزا فوراً نہیں دیتا کہ شاید میرا بندہ توبہ کرلے۔ اس لیے گناہ سرزد ہو جائے تو فوراً توبہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انسان گناہوں کی سزا دنیا میں برداشت کرسکتا ہے نہ آخرت میں اس کے اندر ہمت ہوگی اس لیے اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کا سوال کرتے ہوئے عملی طور پر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۳) ایسے اسباب جو قطع رحمی کا سبب بنتے ہیں ان کو جاننا چاہیے اور پھر ان سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چند ایک اسباب حسب ذیل ہیں: ٭ اپنے جذبات کو ترجیح دینا اور دوسروں کے جذبات کی پروا نہ کرنا قطع رحمی کا سبب بنتا ہے۔ ٭ عزیز و اقارب کی ذاتی زندگی میں مداخلت ٭ برداشت کی قوت سے عاری انسان بھی بہت جلد تعلقات ختم کر بیٹھتا ہے۔ ٭ حد سے زیادہ ٹھٹھہ مذاق۔ ٭ ایک دوسرے کے بارے میں کسی تیسرے فرد سے شکوے شکایت۔ ٭ دنیا کی ہوس یا بڑا بننے کا شوق بھی بسا اوقات قطع رحمی کا سبب بنتا ہے۔ ٭ خود خوشحال رہنے کی تمنا اور دوسروں کی خوشحالی برداشت نہ ہونا۔