الادب المفرد - حدیث 669

كِتَابُ بَابُ دَعَوَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا سُمَيٌّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ قَالَ سُفْيَانُ: فِي الْحَدِيثِ ثَلَاثٌ، زِدْتُ أَنَا وَاحِدَةً، لَا أَدْرِي أَيَّتُهُنَّ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 669

کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش اور مصیبت کی شدت، بد نصیبی کے پہنچنے، بری تقدیر اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ سفیان کہتے ہیں حدیث میں تین باتیں تھیں ایک کا میں نے اضافہ کیا لیکن معلوم نہیں وہ کون سی ہے۔
تشریح : (۱)ہر وہ مصیبت جس کا انسان متحمل نہ ہو اور اسے دور کرنے کی طاقت نہ رکھے وہ جہد البلاء ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اس کا مطلب مال کی کمی اور اہل و عیال کی کثرت ہے۔ مراد اس سے ہر شدید مصیبت ہے۔ (فضل الله الصمد) (۲) سعادت و خوش بختی کی ضد بدبختی ہے۔ دنیا و آخرت کے معاملات میں ایسی صورت حال سے دور چار ہونا کہ بے بس ہو جانا اور آنے والی آزمائش میں ناکام ہو جانا بدبختی ہے۔ اور پر مشقت زندگی کی انتہا اور اس کا آخری سٹیج ہے۔ (۳) بری تقدیر کا مطلب ہے کہ ایسا فیصلہ جو انسان کی دنیا و آخرت کے نقصان کا باعث ہو، اس کا تعلق مال سے ہو یا ایمان سے۔ اسے برا بندوں کی نسبت سے کہا گیا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم حسن پر مبنی ہے۔ (۴) راوی نے جس لفظ کا اضافہ کیا ’’وہ شماتة الاعداء‘‘ ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباري ۱۱؍۱۴۸ میں وضاحت فرمائی ہے۔ اور یہ ایک دوسری حدیث سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے دیکھیے:(الصحیحة للالباني، حدیث:۱۵۴۱)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ راوی کا اپنا نہیں بلکہ انہوں نے حدیث سے لیا ہے۔ (۵) اس سے رواۃ حدیث کی دیانت داری کا بھی پتا چلتا ہے کہ انہوں نے کس قدر دیانت سے احادیث جمع کیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الدعوات، باب التعوذ من جهد البلاء:۶۳۴۷، ۶۶۱۶۔ ومسلم:۲۷۰۷۔ والنسائي:۵۴۹۱۔ (۱)ہر وہ مصیبت جس کا انسان متحمل نہ ہو اور اسے دور کرنے کی طاقت نہ رکھے وہ جہد البلاء ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اس کا مطلب مال کی کمی اور اہل و عیال کی کثرت ہے۔ مراد اس سے ہر شدید مصیبت ہے۔ (فضل الله الصمد) (۲) سعادت و خوش بختی کی ضد بدبختی ہے۔ دنیا و آخرت کے معاملات میں ایسی صورت حال سے دور چار ہونا کہ بے بس ہو جانا اور آنے والی آزمائش میں ناکام ہو جانا بدبختی ہے۔ اور پر مشقت زندگی کی انتہا اور اس کا آخری سٹیج ہے۔ (۳) بری تقدیر کا مطلب ہے کہ ایسا فیصلہ جو انسان کی دنیا و آخرت کے نقصان کا باعث ہو، اس کا تعلق مال سے ہو یا ایمان سے۔ اسے برا بندوں کی نسبت سے کہا گیا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم حسن پر مبنی ہے۔ (۴) راوی نے جس لفظ کا اضافہ کیا ’’وہ شماتة الاعداء‘‘ ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباري ۱۱؍۱۴۸ میں وضاحت فرمائی ہے۔ اور یہ ایک دوسری حدیث سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے دیکھیے:(الصحیحة للالباني، حدیث:۱۵۴۱)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ راوی کا اپنا نہیں بلکہ انہوں نے حدیث سے لیا ہے۔ (۵) اس سے رواۃ حدیث کی دیانت داری کا بھی پتا چلتا ہے کہ انہوں نے کس قدر دیانت سے احادیث جمع کیں۔