الادب المفرد - حدیث 666

كِتَابُ بَابُ دَعَوَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، قَالَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ: ((إِنَّهُ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعَ اللَّهُ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْهُ الْجَدُّ. وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ)) ، سَمِعْتُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذِهِ الْأَعْوَادِ حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ نَحْوَهُ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ نَحْوَهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 666

کتاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے برسر منبر یہ دعا پڑھی:(اے اللہ)بلاشبہ جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو اللہ روک لے وہ کوئی دے نہیں سکتا اور کسی مالدار کو اس کی مالداری اس کے عذاب سے بچا نہیں سکتی۔ اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘ میں نے یہ کلمات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر کی انہی لکڑیوں پر سنے ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت دیگر دو سندوں سے بھی مروی ہے۔
تشریح : (۱)شروع والی دعا ’’منه الجد‘‘ تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے اس لیے اس کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور صرف اسی کا حکم چلتا ہے۔ اس کے حضور اس کی فرمانبرداری ہی کی قیمت ہے جو جتنا زیادہ فرمانبردار ہے اتنی اس کی قدر زیادہ ہے اور وہی اس کی رحمت خاص کا مستحق بھی ہے۔ کسی مال دار یا جاہ و حشمت والے کا اقتدار اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس نے کتنے فرعون صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ (۲) دین کا علم بہت سے لوگوں کو ہے۔ معاشرے میں سیکڑوں لوگ آپ کو ملیں گے جو معلومات کا انسائیکلو پیڈیا ہیں لیکن فہم سے عاری ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی سمجھ اور ان کا صحیح مدعا اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی بندوں کو عطا کرتا ہے۔ یہ وہ فہم ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد محدثین کو عطا فرمایا۔ اس سے مقلدین کی مزعومہ فقاہت ہرگز مراد نہیں جس میں سارا زور امام کے مذہب کو ثابت کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے اور احادیث کو بالائے طاق رکھ کر ساری قوتیں قیل و قال پر صرف کی جاتی ہیں۔ (۳) اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ اتباع سنت کا بھی پتا چلتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس حالت میں آپ کا فرمان سنا اسی کیفیت میں لوگوں کو بیان کیا۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۱۶۸۳۹۔ وابن أبي شیبة:۶؍۲۴۰۔ والطبراني في الکبیر:۱۹؍ ۳۳۸۔ انظر الصحیحة:۱۱۹۴، ۱۱۹۵۔ (۱)شروع والی دعا ’’منه الجد‘‘ تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے اس لیے اس کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور صرف اسی کا حکم چلتا ہے۔ اس کے حضور اس کی فرمانبرداری ہی کی قیمت ہے جو جتنا زیادہ فرمانبردار ہے اتنی اس کی قدر زیادہ ہے اور وہی اس کی رحمت خاص کا مستحق بھی ہے۔ کسی مال دار یا جاہ و حشمت والے کا اقتدار اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس نے کتنے فرعون صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔ (۲) دین کا علم بہت سے لوگوں کو ہے۔ معاشرے میں سیکڑوں لوگ آپ کو ملیں گے جو معلومات کا انسائیکلو پیڈیا ہیں لیکن فہم سے عاری ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی سمجھ اور ان کا صحیح مدعا اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی بندوں کو عطا کرتا ہے۔ یہ وہ فہم ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد محدثین کو عطا فرمایا۔ اس سے مقلدین کی مزعومہ فقاہت ہرگز مراد نہیں جس میں سارا زور امام کے مذہب کو ثابت کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے اور احادیث کو بالائے طاق رکھ کر ساری قوتیں قیل و قال پر صرف کی جاتی ہیں۔ (۳) اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ اتباع سنت کا بھی پتا چلتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس حالت میں آپ کا فرمان سنا اسی کیفیت میں لوگوں کو بیان کیا۔